کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیاجائے گا کہ دونوں کے حقوق کاتحفظ اور دونوں کی فلاح وبہبود کے لئے ضروری قانون سازی کی جائے گی۔ تو یہ مطلب بالکل صحیح ہے اور اسلام سے متصادم نہیں، جب کہ پہلا مطلب اسلام سےیکسر متصادم ہے۔
اس دوسرے مفہوم کی رُو سے عورت پرظلم وتشدد کی جوجوصورتیں بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ان کا سد باب نہایت ضروری اور حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس ذمے داری کی ادائیگی میں موجودہ قوانین اگرناکافی ہیں تو نئے قوانین بنانا اور مناسب تدابیر اختیار کرنا بھی نہایت ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ کیونکہ یہ نہ اسلام کے خلاف ہے اور نہ علماء اس میں مزاحم یا اس کے مخالف ہیں۔ اسلام عورت کو ہرقسم کاتحفظ دیتا ہے بلکہ اسلام ہی عورت کوتحفظ دیتا ہے، علماء اس کے مخالف کس طرح ہوسکتے ہیں ؟ ایں خیال است ومحال است وجنوں .
لیکن اصل بات یہ ہے کہ حکومت کے جن ذمے داران یا ان کے پس پردہ دیگر حضرات وخواتین نے آئین کی مذکورہ شق یادفعہ کا مطلب یہ نہیں سمجھا اور اس کو صرف اپنی مطلب برآری کے لئے استعمال کیا ہے۔ اس کوایک مثال سے اس طرح سمجھاجاسکتا ہےکہ ملک میں آجر اور اجیر (محنت کش اورمالک) دوفریق ہیں، ملک کی ساری آبادی انہی دوفریقوں پر مشتمل ہے۔ ریاست کی ذمے داری ہےکہ دونوں فریقوں کے حقوق کاتحفظ کرے اور ایسے قوانین بنائے کہ نہ محنت کش مالک پر ظلم کرسکے اور نہ مالک مزدوروں کےساتھ ظلم وزیادتی کامعاملہ کرسکے۔
اب اگر مالکان مزدوروں کے حقوق کاخیال نہیں رکھتے، ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کا
|