Maktaba Wahhabi

72 - 492
سماعت کیجئے۔ 1۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ کو کلمہ طیبہ کہا ہے۔ارشاد باری ہے:﴿ أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِیْ السَّمَائِ ﴾ ’’ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال دی ہے ! وہ اس عمدہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑ زمین میں مضبوط ہو اور جس کی شاخ آسمان میں ہو۔‘‘ [1] الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں: ’’ کلمہ طیبہ سے مراد(لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ)اور اس کی فروع کی گواہی دینا ہے۔ اور عمدہ درخت سے مراد کھجور ہے جس کی جڑ زمین میں مضبوط اور اس کی شاخیں بلندی میں پھیلی ہوتی ہیں۔اور یہ ایسا درخت ہے جس سے ہمیشہ بہت منافع کمائے جاتے ہیں۔اوریہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا رہتا ہے۔ اسی طرح ایمان کے درخت کی مثال ہے جس کی جڑ علم اور عقیدے کے اعتبار سے مومن کے دل میں مضبوط ہوتی ہے اور اس کی شاخیں پاکیزہ کلمات ، اعمال صالحہ ، پسندیدہ اخلاق اور اچھے آداب کی شکل میں ہمیشہ آسمان میں پھیلی رہتی ہیں۔اور اللہ تعالیٰ کی طرف وہ اعمال واقوال جاتے رہتے ہیں جو ایمان کے درخت سے نکلتے ہیں۔اور وہ مومن کیلئے نفع بخش ہوتے ہیں۔‘‘ 2۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کلمہ کو تمام رسل علیہم السلام کی دعوت کا خلاصہ قرار دیا ہے۔ارشاد ہے: ﴿ وَمَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِن رَّسُوْلٍ إِلَّا نُوْحِیْ ٓإِلَیْہِ أََنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُوْنِ ﴾ ’’اور ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھی بھیجا اس پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے ، اس لئے تم سب میری ہی عبادت کرو۔‘‘[2] 3۔یہ کلمہ(العروۃ الوثقی)یعنی ’’ مضبوط کڑا ‘‘ اور ’’ پائیدار سہارا ‘‘ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لاَ انْفِصَامَ لَہَا وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾ ’’ پس جس شخص نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا ، اس نے در حقیقت ایک ایسے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہیں ٹوٹے گا۔اور اللہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘ [3] یعنی جس شخص نے بتوں کو ، اللہ کے دیگر شریکوں کو اور ہر اس چیز کی عبادت کو چھوڑ دیا جس کی عبادت کی طرف
Flag Counter