Maktaba Wahhabi

449 - 492
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انہی جامع کلمات میں سے ایک حدیث آج ہمارے خطبۂ جمعہ کا موضوع ہے۔اور وہ حدیث یہ ہے: حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ(لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ)[1] اِس حدیث کا معنی تین طرح سے کیا گیا ہے: 1۔(لا ضرر):بغیر قصد کے کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے۔اور(لا ضرار):قصدا کسی کو نقصان پہنچانا درست نہیں ہے۔ اِس کی مثال یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے اُن درختوں کو پانی پلائے جو اس کے گھر میں موجود ہوں۔بظاہر اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ اِس سے اس کے پڑوسی کا کوئی نقصان نہ ہو۔اگر وہ درختوں کو پانی پلا کر پڑوسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے تو بھی نا جائز۔اور اگر وہ قصد نہ کرے لیکن پڑوسی کا نقصان از خود ہو جائے تو بھی نا جائز۔ 2۔(لا ضرر):کوئی شخص اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔اور(لا ضرار):کسی اور کو بھی نقصان نہ پہنچائے۔اسی سے اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے: ﴿ لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ ﴾ ’’ نہ تو والدہ کو اس کے بچہ کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور نہ ہی باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے۔‘‘[2] ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے نقصان پہنچانے کی کئی صورتیں ہیں۔پہلی یہ ہے کہ اس سے بچے کو دودھ تو پلوایا جائے لیکن اس کے اخراجات نہ اٹھائے جائیں۔دوسری یہ ہے کہ ممتا کی ماری ماں سے اس کا بچہ چھین کر کسی اور کو دودھ پلانے کو دے دیا جائے۔اور تیسری یہ ہے کہ ماں کو زبردستی دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے۔ اور باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے نقصان پہنچانے کی ایک صورت یہ ہے کہ اس سے اس کی استطاعت وقدرت سے زیادہ اخراجات کا مطالبہ کیا جائے۔یا ماں صرف تنگ کرنے کیلئے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کردے۔ 3۔(لا ضرر):کوئی شخص پہل کرتے ہوئے کسی کو نقصان نہ پہنچائے۔اور(لا ضرار):اگر کوئی اسے نقصان پہنچائے تو وہ نقصان پہنچانے والے کو بدلے میں اپنے نقصان سے زیادہ نقصان نہ پہنچائے۔یعنی اگر وہ بدلہ لینا چاہتا ہو تو اتنا ہی نقصان پہنچائے جتنا اس کا ہوا ہو۔اس سے زیادہ نہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ ﴾
Flag Counter