Maktaba Wahhabi

408 - 492
اسی طرح باری تعالی کا فرمان ہے: ﴿ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤمِنُوْا وَلٰـکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ﴾ ’’دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ، آپ کہئے کہ(حقیقت میں)تم ابھی ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے اور ابھی تمھارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔‘‘[1] اسی طرح منافقوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:﴿یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَ لَمْ تُؤمِنْ قُلُوْبُھُمْ﴾ ’’ اے رسول ! آپ کو وہ لوگ غمزدہ نہ کریں جو کفر میں سبقت لے جا رہے ہیں ، ان(منافقوں)میں سے جو زبانی طور پریہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے جبکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے۔‘‘[2] ان تمام آیات سے ثابت ہوا کہ ’ دل ‘ ایمان کی اصل جائے قرار ہے ، اگر دل میں ایمان داخل نہ ہو تو زبانی کلامی ایمان کا دعوی ہرگز کافی نہیں ہے۔اگر یہ دعوی کافی ہوتا تو یقینا منافقوں کو بھی کافی ہوتا ، لیکن اللہ تعالی نے منافقوں کو جہنم کے سب سے نچلے گڑھے کا مستحق قرار دیا۔والعیاذ باللہ دل اللہ تعالی کی نظر کا مرکز ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ ، وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوبِکُمْ وَأَعْمَالِکُمْ) ’’ بے شک اللہ تعالی تمھاری شکلوں اور تمھارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا ، بلکہ وہ تمھارے دلوں اور تمھارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔‘‘[3] لہذا میرے بھائیو اور میری بہنو ! آپ سب بھی اُسی چیز کی طرف دیکھیں جس کی طرف اللہ تعالی دیکھتا ہے۔ اور اُس چیز کی اصلاح کی کوشش کریں جو اللہ تعالی کی نظر کا مرکز ہے۔ اعمال کا تفاضل دلوں کے تفاضل کے لحاظ سے ہے جی ہاں ، کئی لوگ ایک جیسا عمل کرتے ہیں ، لیکن ان میں سے بعض کا عمل دوسروں کے عمل سے افضل ہوتا ہے۔اِس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔مثلا ’نماز‘ ہے جو کئی لوگ پڑھتے ہیں۔لیکن ان میں سے بعض کی نماز دوسروں کی نماز سے افضل ہوتی ہے۔حتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
Flag Counter