Maktaba Wahhabi

404 - 492
۶۔ہندوستان میں اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ احمد آباد کے زیر اہتمام نومبر ۱۹۷۳؁ء میں ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں چھ دیوبندی اوردو اہلحدیث علماء نے شرکت کی۔ان میں سے سات نے اس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں پر مقالے پیش کیے اور سوائے ایک کے باقی سب نے اس مسئلے کو عہد صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہی اختلافی مسئلہ قرار دیا اور سب نے وہی موقف اختیار کیا جو اہلحدیثوں کا ہے۔اس سیمینار کی پوری کارروائی اور اس میں پیش کیے جانے والے مقالوں کو بعد میں ایک کتاب بعنوان ’’ایک مجلس کی تین طلاق، قرآن و سنت کی روشنی میں‘‘کی شکل میں شائع کر دیا گیا۔ ۷۔مشہور بریلوی عالم پیر کرم شاہ ازہری نے ’’دعوت غوروفکر ‘‘کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے احناف کو تقلید کے بندھن سے آزاد ہو کر قرآن و سنت کی روشنی میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی ہے اور طلاقِ ثلاثہ کے مسئلہ میں موقف ِاہلحدیث کی پُرزور حمایت اور تائیدکی ہے۔ حلالہ …ایک ملعون فعل جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں اپنے اپنے وقت پر دے دے تو اس کے بعد رجوع کا حق ختم ہو جاتا ہے۔اور دوبارہ ان دونوں کے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کی کوئی شکل باقی نہیں رہتی۔ہاں اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ عورت اپنی مرضی سے کسی اور آدمی سے شادی کرے۔پھر وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق دے یا وہ فوت ہو جائے تو عدت گذارنے کے بعد یہ عورت اگر چاہئے تو دوبارہ اپنے پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ وَ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُھَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ﴾ ’’ پھر اگر وہ(تیسری بار)اسے طلاق دے دے تو اب وہ اس کیلئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا کسی دوسرے سے(شرعی)نکاح نہ کرے(حلالہ کیلئے نہیں۔)پھر اگر وہ بھی اسے(اپنی مرضی سے)طلاق دے دے تو ان دونوں کو میل جول کر لینے میں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ انھیں یقین ہو کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے۔یہ اللہ تعالی کی حدیں ہیں جنھیں وہ جاننے والوں کیلئے بیان کر رہا ہے۔‘‘[1] بعض حضرات جو اکٹھی تین طلاقوں کو تین شمار کرکے خاوند کو اپنی بیوی کی طرف رجوع کے حق سے محروم کردیتے ہیں انھوں نے اس آیت کا سہارا لے کر حلالے جیسی لعنت کا دروازہ کھول لیا ہے ! حالانکہ اس میں مطلقہ عورت کے دوسرے آدمی کے ساتھ شرعی نکاح کا ذکر ہے جو کہ اس کی شرائط اور آداب وغیرہ کا لحاظ کرتے ہوئے ہی ہونا چاہئے۔نہ کہ
Flag Counter