Maktaba Wahhabi

362 - 465
لہٰذا مومن کو اللہ رب العزت کے دئیے ہوئے رزق پر قناعت کرنی چاہئے اور اُس ’تکاثر ‘ سے اجتناب کرنا چاہئے جو اسے دین سے غافل کردے۔اِس طرح اس کے رزق کو اللہ تعالی بابرکت بنا دے گا۔ ’ تکاثر ‘ کی چاہت اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنے سے زیادہ مالدار کو دیکھتا ہے اور خواہش کرتا ہے کہ کاش میں بھی اس کی طرح مالدار ہوتا، پھر وہ تگ ودو شروع کردیتا ہے اور دین سے بالکل غافل ہوجاتا ہے۔حالانکہ انسان کو اُس آدمی کی طرف دیکھنا چاہئے جو اس سے مالی لحاظ سے کم تر ہو۔اور اُس آدمی کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو مالی طور پر اس سے زیادہ مضبوط ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( اُنْظُرُوْا إِلیٰ مَنْ ہُوَ أَسْفَلَ مِنْکُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلیٰ مَنْ ہُوَ فَوْقَکُمْ، فَإِنَّہُ أَجْدَرُ أَن لَّا تَزْدَرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ ) [1] ’’ تم اس شحص کی طرف دیکھو جو ( دنیاوی اعتبار سے ) تم سے کم تر ہو۔اور اس شخص کی طرف مت دیکھو جو ( دنیاوی اعتبار سے ) تم سے بڑا ہو کیونکہ اس طرح تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھو گے۔‘‘ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص اپنے سے کم تر انسان کی طرف دیکھے گا وہ اللہ کی ان نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھے گا جو اس نے اسے عطا کررکھی ہیں۔اور ان نعمتوں میں سے تین نعمتیں ایسی ہیں کہ جو کسی کے پاس موجود ہوں تو اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ گویا اللہ تعالی نے اس کیلئے پوری دنیا جمع کردی ہے اور وہ ہیں : صحت، امن اور ایک دن کی خوراک۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمْ مُعَافیً فِیْ جَسَدِہٖ، آمِنًا فِیْ سِرْبِہٖ، عِنْدَہُ قُوْتُ یَوْمِہٖ فَکَأَنَّمَا حِیْزَتْ لَہُ الدُّنْیَا ) [2] ’’ تم میں سے جو شخص صبح کے وقت تندرست ہو، اپنے آپ میں پر امن ہو اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک موجود ہو تو گویا اُس کیلئے پوری دنیا کو جمع کردیا گیا۔‘‘ آئیے ایک واقعہ سماعت کیجئے، جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کس طرح ’قانع ‘تھے، باوجود اس کے کہ ان کے پاس بہت زیادہ مال نہ تھا۔ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان سے کہا : کیا ہم فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہیں ؟
Flag Counter