Maktaba Wahhabi

298 - 465
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی سیرت کے چند درخشاں پہلو اہم عناصرِ خطبہ : 1۔نسب نامہ، کنیت اور لقب 2۔قبولِ اسلام، کیوں اور کیسے ؟ 3۔فضائل ومناقب 4۔عملی زندگی کے چند پہلو 5۔خلیفۂ دوم کے کارناموں کا مختصر تذکرہ 6۔شہادت پہلا خطبہ محترم حضرات ! آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم ان شاء اللہ ایک عظیم شخصیت کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ ٭ یہ وہ شخصیت ہیں کہ جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے خصوصی طور پر مانگا تھا۔ ٭ جنھیں اللہ تعالی نے سابقین اولین ( سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں) میں شامل فرمایا۔ ٭ جن کے قبول ِ اسلام سے اللہ تعالی نے اسلام اور مسلمانوں کو قوت بخشی۔ ٭ جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار کیا کہ جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کرجنت کی بشارت دی۔ ٭ وہ شخصیت کہ جن کی زبان اور دل پر اللہ تعالی نے حق رکھ دیا تھا۔ ٭ جو زمین پراپنی زبان سے مشورہ دیتے تو عرش سے اللہ تعالی ان کی موافقت میں وحی نازل کردیتا۔ ٭ جنھیں تاریخ اسلام میں سب سے پہلے امیر المؤمنین کا لقب دیا گیا۔ ٭ جن کے دور خلافت میں فارس اور روم کی دو بڑی سلطنتیں شکست سے دوچار ہوئیں اور ان میں اسلام کا عَلَم بلند ہوا۔ میری مراد دورِ خلافت راشدہ کے دوسرے خلیفہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔جو ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اِس امت کے سب سے افضل انسان ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دیتے تھے۔چنانچہ ہم ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل قرار دیتے تھے اور ان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے، ان کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو افضل تصور کرتے تھے۔[1]
Flag Counter