Maktaba Wahhabi

300 - 465
سامنا ہو تو وہ اسے قتل نہ کرے۔اسی طرح العباس بن عبد المطلب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جان ہیں، ان سے کسی کا آمنا سامنا ہو تو وہ انھیں بھی قتل نہ کرے۔‘‘ چنانچہ ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’ ہم اپنے باپوں، اپنے بیٹوں، اپنے بھائیوں اور اپنے قبیلے کے لوگوں کو قتل کریں اورالعباس کو چھوڑ دیں ؟ اللہ کی قسم ! اگر وہ میرے سامنے آگئے تو میں ان پر تلوار سے حملہ کردوں گا۔‘‘ ان کی یہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے کہا : (( یَا أَبَا حَفْص ! أَیُضْرَبُ وَجْہُ عَمِّ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِالسَّیْفِ ؟ )) ’’اے ابو حفص ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو تلوار کے ساتھ قتل کردیا جائے گا ؟ ‘‘ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : یہ پہلا دن تھا جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ابو حفص کہہ کر پکارا۔[1] اور جہاں تک ’ الفاروق ‘ لقب کا تعلق ہے تو یقینی طور پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اس لقب کے مستحق تھے، کیونکہ آپ ان حضرات میں سے تھے کہ جنھوں نے اسلام قبول کیا تو اللہ تعالی نے ان کے ذریعے اسلام اور کفر کے درمیان فرق کردیا۔اسی طرح جب آپ خلیفہ بنے تو اللہ تعالی نے ان کے ذریعے اسلام کو غلبہ دیا۔ تاہم اس سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ سب سے پہلے انھیں یہ لقب کس نے نوازا تھا ؟ ایک قول یہ ہے کہ انھیں یہ لقب سب سے پہلے اہل کتاب نے نوازا۔لیکن یہ بات کسی صحیح سند سے پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی۔دوسرا قول یہ ہے کہ انھیں یہ لقب خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوازا تھا۔لیکن جس روایت میں اس لقب کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔[2] خصوصا وہ تمام روایات کہ جن میں خود ان کا اپنا بیان ہے کہ جب انھوں نے اسلام قبول کیا تو انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : ’’ اے اللہ کے رسول ! کیا ہم حق پر نہیں ؟ اگر ہم مر جائیں اور اگر ہم زندہ رہیں ؟ (دونوں صورتوں میں)‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کیوں نہیں، ہم حق پر ہیں، اگر ہم مر جائیں اور اگر ہم زندہ رہیں۔(دونوں صورتوں میں)‘‘ تو انھوں نے کہا : تب آپ چھپے ہوئے کیوں ہیں ؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! آپ ضرور نکلیں گے۔
Flag Counter