Maktaba Wahhabi

299 - 465
جناب عمر رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے تیرہ سال بعد، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت عام الفیل میں ہوئی تھی۔اِس طرح عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تیرہ سال چھوٹے تھے۔اور اس کی دلیل صحیح مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ تینوں کی وفات تریسٹھ ( ۶۳) سال کی عمر میں ہوئی۔[1] اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب عمر رضی اللہ عنہ کی ولادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تیرہ سال بعد ہوئی ہو۔کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تقریبا تیرہ سال زندہ رہے۔اس کے بعد ان کی شہادت ہوئی۔ عمر رضی اللہ عنہ کا نسب نامہ یوں ہے : عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن عبد اللہ بن قُرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی۔ یوں کعب بن لؤی میں آپ کا نسب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے ساتھ جا ملتا ہے۔ آپ کی والدہ کا نام حنتمہ بنت ہاشم بن المغیرۃ بن عبد اللّٰه بن مخزوم تھا۔ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے نسب نامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ باپ کی طرف سے بنو عدی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جو مکہ مکرمہ کے معزز قبیلوں میں سے ایک تھا۔اِس لحاظ سے آپ اور آپ کے قبیلے کا شمار مکہ مکرمہ کے اشراف میں ہوتا تھا۔اور قریش کی سفارت کاری انہی کے ذمہ تھی۔اور آپ ماں کی طرف سے بنو مخزوم قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جس کا شمار مکہ مکرمہ کے امیرترین قبیلوں میں ہوتا تھا، کیونکہ اس قبیلہ کے لوگ تجارت کرتے تھے اور پڑھنا لکھنا بھی جانتے تھے۔ابو جہل اور ولید بن مغیرہ جیسے دولتمند لوگ بھی اسی قبیلے کے تھے، جو اسلام اور مسلمانوں کے شدید ترین دشمن تھے۔تاہم اسی قبیلے سے اللہ تعالی نے کئی لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی بھی توفیق دی۔مثلا ارقم بن ابی الأرقم رضی اللہ عنہ، جنھوں نے اپنا گھر اُن کمزور مسلمانوں کیلئے پناہ گاہ کے طور پر وقف کر رکھا تھا جو کفار کے مظالم سے تنگ آکر اسی گھر میں آچھپتے تھے۔اسی طرح ابو سلمہ رضی اللہ عنہ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ بھی بنو مخزوم قبیلے سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ آپ کی کنیت ’ابو حفص ‘تھی اور لقب ’ فاروق ‘ تھا۔ آپ کی یہ کنیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھی تھی۔جیساکہ معرکۂ بدر کے متعلق روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : ’’ مجھے معلوم ہے کہ بنو ہاشم وغیرہ کے کچھ لوگوں کو یہاں زبردستی لایا گیا ہے اور انھیں ہم سے لڑنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔لہذا تم میں سے جس شخص کا بنو ہاشم میں سے کسی سے آمنا
Flag Counter