Maktaba Wahhabi

169 - 465
کاش میرا کاروبار بھی اسی طرح اچھا ہو جائے۔ یا اگر آپ ایک طالب علم ہیں اور ایک اچھے طالب علم کی اچھی پوزیشن پر رشک کرتے ہوئے آرزو کریں کہ کاش میں بھی محنت کرکے اسی طرح اچھی پوزیشن حاصل کر لوں۔ یا آپ کسی کے پاس اچھی گھڑی یا اچھا لباس یا اچھی سواری یا کوئی اور نعمت دیکھیں اور دل میں یہ خواہش پیدا ہو کہ کاش اللہ تعالی یہ نعمتیں مجھے بھی عطا کردے تو یہ ’ رشک ‘ ہے۔ اِس بناء پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’ حسد ‘ نا جائز اور ’ رشک ‘ جائز ہے۔اِس کی دلیل حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( لَا حَسَدَ إِلَّا فِی اثْنَتَیْنِ : رَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ الْقُرْآنَ فَہُوَ یَقُوْمُ بِہٖ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّہَارِ، وَرَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَہُوَ یُنْفِقُہُ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّہَارِ)) [1] ’’ صرف دو آدمی ہی قابل ِ رشک ہیں۔ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا (اسے حفظ کرنے کی توفیق دی) چنانچہ وہ اس کے ساتھ دن اور رات کے اوقات میں قیام کرتا ہے۔دوسرا وہ جسے اللہ تعالی نے مال عطا کیا، چنانچہ وہ اسے دن اور رات کے اوقات میں خرچ کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر آپ کسی ایسے حافظ ِ قرآن کو دیکھیں جو دن رات اسے نماز کے دوران پڑھتا ہو، چنانچہ آپ کے دل میں بھی یہ آرزو پیدا ہو کہ کاش میں بھی اِس حافظ ِ قرآن کی طرح حافظ ِ قرآن ہوتا اور میں بھی اُس کی طرح دن اور رات کے مختلف اوقات کی نمازوں میں اس کی تلاوت کرتا تو یہ جائز ہے۔اسی طرح دوسرا آدمی جو مالدار ہو اوروہ دن رات اپنا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہو، اسے دیکھ کر آپ کے دل میں بھی یہ تمنا پیدا ہو کہ میرے پاس بھی اسی طرح مال ہوتا تو میں بھی اس آدمی کی طرح اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرتا تو یہ جائز ہے۔اور اسی کو ’ رشک ‘ کہتے ہیں۔ حسد کی مذمت اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی متعدد احادیث مبارکہ میں ’ حسد ‘ کی مذمت فرمائی ہے۔چنانچہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے : ﴿ اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ﴾[2]
Flag Counter