Maktaba Wahhabi

267 - 608
میں سے ہے ۔ ‘‘ اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ نے بھی ان کی کتاب کی توثیق کی ہے۔[1] اور اسی بات کو حافظ عبد الغنی المقدسی رحمہ اللہ نے اپنی سیرت کی کتاب میں ترجیح دی ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ۔[2] اور شاید حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرف ہے کیونکہ انھوں نے زاد المعاد میں زھری رحمہ اللہ کا یہ قول سب سے پہلے نقل کیا ہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال اور دو ماہ قبل پیش آیا۔ [3] بنا بریں جو بات عام لوگوں میں مشہور ہے کہ یہ واقعہ ماہ رجب کی ستائیسویں رات کو پیش آیا ‘ درست نہیں کیونکہ کسی معتمد روایت سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ۔ واللہ اعلم مولانا صفی الرحمن مبارکفوری رحمہ اللہ نے ’’ الرحیق المختوم ‘‘ میں اہلِ سِیَر کے چھ اقوال ذکر کئے ہیں۔ ان میں سے ایک قول علامہ منصورپوری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ نبوت کے دسویں سال ۲۷ / رجب کو پیش آیا ۔ پھر انھوں نے اسے اِس بناء پر صحیح ماننے سے انکار کیا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات نماز پنجگانہ کی فرضیت سے پہلے ہوئی ، یعنی نبوت کے دسویں سال ماہِ رمضان میں ۔ جبکہ نمازیں معراج کی رات فرض کی گئیں ۔ لہٰذا معراج کا زمانہ ان کے بقول اِس کے بعد کا ہو گا اس سے پہلے کا نہیں ۔ اسی طرح انھوں نے وہ دو اقوال بھی غیر صحیح قرار دئیے جو اِس سے بھی پہلے کی تاریخ بتاتے ہیں ۔ رہے باقی تین اقوال ( نبوت کے بارہویں سال ماہ رمضان میں، نبوت کے تیرہویں سال ماہ محرم میں اور نبوت کے تیرہویں سال ماہ ربیع الأول میں) تو ان کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کیلئے کوئی دلیل نہیں مل سکی ۔ تاہم ان کے بقول سورۂ اسراء کے سیاق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکی زندگی کے بالکل آخری دور کا ہے ۔ [4] معجزۂ اسراء ومعراج کے متعلق چند تمہیدی گذارشات عرض کرنے کے بعد اب ہم اصل واقعہ کی جانب آتے ہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس عظیم الشان واقعہ کے متعلق صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں متعدد روایات موجود ہیں جو تقریبا پچیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں ، اگر کوئی شخص ان میں سے صرف ایک دو روایات کو سامنے رکھ لے تو وہ یقینی طور پر اس پورے واقعہ کا احاطہ نہیں کر سکے گا کیونکہ کسی ایک روایت میں اس کی پوری تفصیلات
Flag Counter