Maktaba Wahhabi

265 - 608
’’ پاک ہے وہ اللہ جو اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس کو ہم نے بابرکت بنایا ہے ، اس لئے کہ ہم انھیں اپنی قدرت کی بعض نشانیاں دکھائیں ، یقینا اللہ تعالیٰ خوب سننے ، دیکھنے والا ہے ۔ ‘‘ اس آیت کریمہ کا آغاز اللہ تعالیٰ نے {سُبْحَانَ} سے کیا ہے۔ اس کا لفظی معنی تو یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے عیب سے پاک ہے ، تاہم عربی زبان میں یہ لفظ حیرت وتعجب کے اظہار کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر اظہارِ تعجب کیا جا رہا ہے کہ اس نے اپنے بندے کو وہ طویل مسافت راتوں رات طے کرادی جو اُس وقت چالیس راتوں میں طے کی جاتی تھی۔ اور یہ اسلوبِ بیان اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو ’’ اسراء ومعراج ‘‘ بیداری کی حالت میں جسمانی طور پر کرایا گیا ، ورنہ اگر یہ خواب کی حالت میں روحانی طور پر ہوتا تو اس پر لفظ{سُبْحَانَ} کے ساتھ اظہار تعجب نہ کیا جاتا ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس میں لفظ ’’ عبد ‘‘ فرمایا ہے ، یعنی اس نے اپنے ’’ بندے ‘‘ کو سیر کرائی ۔ تو یہ لفظ بھی جسم اور روح دونوں پر بولا جاتا ہے ، نہ کہ صرف روح پر ۔ یہ دوسری دلیل ہے اس بات پر کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں نہیں ‘ بلکہ بیداری میں ’’ اسراء ومعراج ‘‘ کے شرف سے نوازا گیا ۔ اور اس کی تیسری دلیل یہ ہے کہ اگر ’’ اسراء ومعراج ‘‘ کا واقعہ خواب میں پیش آیا ہوتا اور آپ نے لوگوں کو اپنا خواب ہی سنایا ہوتا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ جھٹلاتے اور نہ اس کا انکار کرتے ۔ لہٰذا کفارِ مکہ کی تکذیب اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک خواب بیان نہ کیا تھا بلکہ لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا تھاکہ آپ کو جسمانی طور پر بیداری کی حالت میں اسراء ومعراج کرایا گیا ہے ، تبھی تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا تھا کہ ہم مکہ مکرمہ سے ایلیا (بیت المقدس ) تک کا سفر چالیس راتوں میں طے کرتے ہیں اور آپ راتوں رات وہاں سے ہو کر واپس بھی پہنچ گئے ! حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:(وَہَذَا مَذْہَبُ جَمْہُوْرِ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ مِنْ أَنَّ الْإِسْرَائَ کَانَ بِبَدَنِہٖ وَرُوْحِہٖ صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَسَلاَمُہُ عَلَیْہِ کَمَا دَلَّ عَلٰی ذَلِکَ ظَاہِرُ السِّیَاقَاتِ مِنْ رُکُوْبِہٖ وَصُعُوْدِہٖ فِی الْمِعْرَاجِ وَغَیْرِ ذَلِکَ) [1] ’’ اگلے پچھلے بیشتر اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم وروح دونوں کے ساتھ اسراء کرایا گیا ، حیسا کہ قصۂ معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سواری پر سوار ہونا ، اوپر جانا وغیرہ جیسے امور سے یہ بات بالکل واضح ہے۔ ‘‘
Flag Counter