Maktaba Wahhabi

227 - 608
صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں ، بوجھ برداشت کرتے ہیں ، تہی دست کو کما کر دیتے ہیں ، مہمان نواز ہیں اور حق کے واقعات ( تمام خصالِ خیر ) میں مدد کرتے ہیں ۔‘‘ کفار قریش کی گواہی نبوت ملنے سے پہلے ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں’’ الصادق الأمین‘‘ کے لقب سے مشہور تھے ۔ یعنی وہ اس بات کے معترف تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور امانت میں خیانت نہیں کرتے ۔ پھر نبوت ملنے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی{وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأقْرَبِیْنَ} تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کو پکارا ۔ جب وہ آپ کے پاس پہنچ گئے تو آپ نے فرمایا : ’’اگر میں تمھیں اس بات کی خبر دوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے گھوڑ سواروں کی ایک فوج تم پر حملہ کرنے والی ہے تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے ؟ ‘‘ سب نے بیک آواز کہا : (( مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ إِلَّا صِدْقًا [1])) ’’ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہوئے ہی پایا ہے ۔‘‘ اور صلح حدیبیہ کے دوران جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہ روم ( ہرقل ) کو ایک خط بھیجا جس میں اسے اسلام قبول کرنے کی طرف دعوت دی گئی تو اس وقت قریش کا ایک قافلہ جس کے سربراہ ابو سفیان بن حرب تھے ‘روم میں تھا ۔ ہرقل نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پڑھنے سے پہلے ابو سفیان اور ان کے قافلے میں دیگر لوگوں کو اپنے دربار میں بلایا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں چند سوالات کئے۔ ابو سفیان بن حرب اس وقت تک مسلمان نہ تھے لیکن انھوں نے ہرقل کو دیانتداری کے ساتھ جوابات دئے ۔ اس کے سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ کیا نبوت کا دعوی کرنے سے پہلے کبھی تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی ؟ ابو سفیان نے کہا : نہیں ۔ اس نے کہا: وہ تمھیں کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟ تو ابو سفیان نے کہا : (( یَقُوْلُ:اعْبُدُوا اللّٰہَ وَحْدَہُ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا،وَاتْرُکُوْا مَا یَقُوْلُ آبَاؤُکُمْ،وَیَأْمُرُنَا بِالصَّلَاۃِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَۃِ )) ’’ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ تم اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ ۔ اور تم اپنے آباؤ اجداد کی باتوں کو چھوڑ دو ۔ نیز وہ ہمیں نماز پڑھنے ، سچ بولنے ، پاکدامن رہنے اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں ۔ ‘‘
Flag Counter