Maktaba Wahhabi

73 - 83
روم اور ایران کی جنگ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روم و ایران کی جنگ میں روم کی حمایت کی تھی اس لئے ہم بھی انتخابات میں چھوٹے کفر کی حمایت کرنے کے مجاز ہیں۔یہ شبہ دو غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ 1۔ اول تو یہ ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومیوں کی کسی طرح کی حمایت کی تھی،حدیث کی کسی روایت میں یہ آیا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومیوں کی کسی طرح کی مدد فرمائی تھی یا زبان کی حد تک ہی حمایت کا اعلان فرمایا تھا؟ ایسی کسی بھی بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے نہ ثبوت فراہم کیا جا سکتا ہے۔واقعہ صرف اتنا ہے کہ ایرانیوں کی فتح پر قریش خوش ہوتے تھے اور رومیوں کی فتح پر مسلمان،علمی امانت سے کام لیا جائے تو اسے سے بڑے کافر کی شکست پر خوش ہونے کا جواز ہے۔رہا کسی کفر کا ہاتھ بٹانا،ساتھ دینا یا زبان کی حد تک ہی تائید و حمایت کرنا تو ایسے کسی بھی واقعہ کا اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دعویٰ کیا جاتا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے اور اگر ایسا دعویٰ نہیں کیا جاتا تو پھر سرے سے مسئلہ ہی نہیں رہتا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ وہ خوشی جس کا قرآن مجید میں ذکر آیا ہے ﴿یومئذ یفرح المؤمنون﴾ مفسرین کی ایک جماعت کے نزدیک وہ رومیوں کی فتح کے بارے میں نہیں بلکہ غزوئہ بدر کی فتح کی پیشین گوئی ہے۔تاہم اگر رومیوں کی فتح کے بارے میں بھی ہو تو اس سے صرف خوشی کا جواز نکلتا ہے۔اس کے علاوہ یہ وضاحت بھی فائدے سے خالی نہیں کہ جناب ابوبکر رضی اللہ نے جو شرط بدی تھی وہ بھی رومیوں کے لئے جذباتی ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ قرآن اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کی حقانیت کی وجہ سے تھی کہ کافر روم کی فتح ناممکن قرار دیتا تھا۔ 2۔ دوسری غلط فہمی ووٹ اور مینڈیٹ کا مطلب نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔یہ فرض
Flag Counter