Maktaba Wahhabi

57 - 83
7۔ مصلحت کا تقاضا! بقول سید قطب آج مصلحت ایسا بت بن گیا ہے جو نصوص کے ہوتے ہوئے تو کیا شرک و جہنم کی وعیدوں کے باوجود حلال و حرام کا تعین کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کی ممبری کو ’’مصلحت‘‘ کا تقاضا قرار دینے والے حضرات ذرا مصلحت کی ان دو شرطوں پر غور فرما لیں جو فقہائے اسلام کے نزدیک مصلحت کا اعتبار کرنے کے لئے شرعاً عائد ہوتی ہیں۔ پہلی شرط: مصلحت،مقاصد شریعت کی ترتیب میں آتی ہو: امام شاطبی ’’الموافقات‘‘ کے جز اول میں فرماتے ہیں کہ جان و مال اور عقل و نسل کی حفاظت مقاصد دین میں شامل ہے مگر حفظ دین سب سے پہلے اور مقدم ہے۔دیگر فقہا بھی مصلحت کی اس شرط پر متفق ہیں کہ وہ مقاصد شریعت کی ترتیب کے تابع ہو جو کہ حفظ دین سے شروع ہوتے ہیں اور دین کے بعد ہی جان،مال،عقل اور نسل کی حفاظت کی نوبت آتی ہے۔آج تک کسی فقیہ نے اس بات سے اختلاف نہیں کیا کہ حفظ دین سب سے بڑی مصلحت ہے۔پھر دین میں ہر آدمی جانتا ہے کہ عقیدہ اہم ترین ہے اور عقائد میں عقیدہ توحید سب سے پہلے ہے۔اس لحاظ سے علمی بنیاد پر مصلحت کو لیا جائے تو یہ ایک شرعی دلیل ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوڑے ہوئے دین خالص اور شفاف عقیدہ کی ترو تازگی قائم رکھنے کے لئے اگر جان و مال،چودھراہٹ یا تعلقات و اثر و رسوخ کی قربانی دینی پڑے تو ایسی قربانی سے نہ صرف دریغ نہ کیا جائے بلکہ اسے انبیاء و صالحین کی سنت سمجھ کے اپنی انتہائی خوش قسمی سمجھا جائے،کہ یہ رتبہ بلند ہر ایک کو نہیں ملا کرتا اور اللہ ہر ایک سے ایسی قربانی قبول بھی نہیں فرماتا ﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ﴾ آج اس باطل نظام میں امیدوار یا ووٹر کی حیثیت سے شرکت فرمانے والے دیندار حضرات آخر اپنی جان و مال یا پھر بد عقیدہ و بے عمل اکثریت کے قومی مفاد کی مصلحت سے زیادہ کیا دلیل رکھتے ہیں؟ بتائیے یہ مصلحت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کی خاک پا کے سامنے کیا حیثیت
Flag Counter