Maktaba Wahhabi

66 - 124
فطرت پر پیدا ہوتا ہے(صحیح بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورہ الروم)ہر بچہ فطرت پر پیدا ہونے کے باوجود اچھی اور بری چیز کی سمجھ نہیں رکھتا بلکہ اس کے بڑے اس کی اس بارے میں رہنمائی کرتے ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ فطرت اسلام ہے اور اسلام قرآن وسنت کو کہتے ہیں۔لہٰذا رہنمائی کا اصل مأخذ قرآن وسنت ہے نہ کہ فطرت انسانی ہے۔ غامدی صاحب اپنا خود ساختہ اصول بناتے ہوئے(جس کو یہ فطرت کا نام دیتے ہیں)فرماتے ہیں کہ چیتے شیر گدھے اور کتے یہ ایسے جانور ہیں کہ ان کی حرمت کو اللہ نے قرآن میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی کیونکہ ان کی حرمت کا پتہ انسانی فطرت سے چل جاتاہے۔ اگر ہم ان کے اس اصول کو غور سے دیکھیں تو ہمیں چند باتیں معلوم ہوتی ہیں اور چند سوالات ہمارے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ ۱) اگر حرام وحلال کی معرفت فطرت انسانیت سے ہوتی تو رسولوں کی بعثت اور کتابوں کے نزول کی کیا ضرورت تھی۔ ۲) قرآن میں جن چیزوں کی حرمت کی وضاحت ہے کیا یہ غیر فطری ہیں اگر نہیں تو ان کی وضاحت کیوں کی گئی ان کو فطرت پر کیوں نہیں چھوڑ ا گیا۔ مثلاً قرآن نے مردار کو حرام قرار دیا ہے اور انسانی فطرت بھی اسے غلط سمجھتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عام انسان کی فطرت بھی اسے غلط تسلیم کر رہی ہے تو اللہ ربّ العالمین نے اسے واضح نام دے کر کیوں حرام کیا؟اس کا مطلب یہی ہے کہ حلت و حرمت میں فطرت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اسی طرح دم مسفوح شریعت نے اس کی حرمت کا نصاً ذ کر کیا ہے انسانی فطرت پر نہیں چھوڑا ہے۔حالانکہ دم مسفوح(بہتا ہوا خون)کو عام انسانی فطرت انتہائی ناپسندیدہ تصور کرتی ہے
Flag Counter