Maktaba Wahhabi

67 - 124
الغرض شریعت کی تحریم و تحلیل میں فطرت کو کوئی اختیار نہیں۔ دراصل غامدی صاحب نے فطرت کا فرسودہ اصول بنا کر ان احادیث کا رد کیا ہے کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی چیز کی حلت اور حرمت کے اصول بیان کئے ہیں۔مثلاً پالتو گدھے کا حرام ہونا،گھوڑے کا حلال ہونا کچلی والے جانوروں کا حرام ہونا،اسی طرح نوک دار پنجے والے پرندوں کا حرام ہونا وغیرہ۔ غامدی صاحب نے اصول فطرت کے ذریعہ ان تمام احادیث کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب اس اصول فطر ت کا مطلب یہ ہوا کہ طوطا جس کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اگرا نسانی فطرت چاہے تو اس کو روسٹ کر کے تناول کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح اگر کوئی درندہ مثلاًکتا یا بھیڑیاوغیرہ جو شریعت کے روح سے حرام ہے انسانی فطرت(غامدی فطرت)کی چاہت سے حلال ہو سکتا ہے ’’نعوذباللّٰه من ذالک۔‘‘ ۳) اگر اچھی بری چیز کا پتہ فطرت سے ہوجاتا ہے تو غامدی صاحب کو اپنے استاد امین حسن اصلاحی کی شاگردی یا ان سے استفادہ کرنے کی کیا ضروررت پڑی۔ آگے غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ وہ جانور جس کی حلت وحرمت کا فیصلہ تنہا عقل وفطرت کی رہنمائی میں کرلینا انسان کے لئے نا ممکن تھاان کی حرمت کی وضاحت کردی گئی۔کیا خنزیر عقلی دلیل یا فطری دلیل سے حرام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح صفت بیان کی ہے(وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ)(الاعراف آیت ۱۵۶) خبیث چیز کی حرمت کا فطرتی طور پرپتہ چل جاتا ہے۔تو اس چیز کی حلت وحرمت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter