Maktaba Wahhabi

28 - 124
مثلاً اگر ہم لفظ’’صلوۃ ‘‘کی تشریح و توضیح صرف قرآن مجید اور لغت سے کریں تو لفظ’’ صلوۃ ‘‘ کا اصل معنی و مفہوم ہی بدل کر رہ جائے گا۔اللہ رب العالمین قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ’’اقیمو الصلوۃ واتوالزکاۃ‘‘(سورۃبقرۃ)۔اگر ہم لفظ ’’صلوۃ‘‘ کا معنی قرآن مجید میں تلاش کریں توقرآن میں ایک جگہ موجود ہے ’’واقيمو الوزن‘‘(سورۃ رحمان)کہ وزن قائم کرو ہو سکتا ہے کہ ’’اقیمو الصلوۃ‘‘کے معنی وزن قائم کرنے کے ہوں۔ اب صلوۃ قائم کرنے کا حکم صرف انسانوں کو ہے یا تمام کائنات کو ؟اگر ہم قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ اللہ تعالیٰ بھی صلوۃ قائم کرتا ہے۔جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : ’’أُولَـئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ ‘‘ ترجمہ: مومنین پر ان کے رب کی طرف سے صلوات اور رحمت بھیجی جاتی ہے۔(البقرہ،آیت ۱۵۷) اب اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی صلوۃ ادا کرتا ہے۔اور اگر لغت میں جایا جائے تو لغت میں صلوۃ کے معنی ٹھمکے مارنے(ناچنے)کے بھی ہیں۔اگر اب کوئی غامدی صاحب کی طرح کا منچلا اٹھ کھڑا ہو اور ’’اقیمو الصلوۃ‘‘کی تفسیر ناچ گانا کرے اور دلیل کے طور پر قرآن کی یہ آیت پیش کرے : ’’اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْو‘‘ ترجمہ:’’ جان لو کہ دنیا کی زندگی ہے ہی کھیل تماشا‘‘(سورۃ الحدید،آیت ۲۰) تو ہم اس کا کیا جواب دیں گے ؟یقینا یہی کہیں گے کہ صلوۃ ایک مخصوص اصطلاح ہے کہ جس کی تفسیر و توضیح صرف حدیث اور سنت سے کی جائے گی کہ قیام،رکوع،سجود اور تشہد پر مبنی ایک عمل کو صلوۃ کہا جاتا ہے۔اور یہی بات حق اور صواب پر مبنی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کی تفہیم و توضیح خود قرآن مجید کے بعد احادیث اور سنن سے کی جائے گی۔اور بطور استدلال و استشہاد کلام عرب سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
Flag Counter