Maktaba Wahhabi

105 - 124
انہی اصولوں کے ذریعے بحث وتمحیص استنباط کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مثلاً۔ (غامدی صاحب)کی نظر میں محدثین کے اصول قابل ترمیم ہیں۔اور موصوف وقتا فوقتا اپنے موقف کی تشریح وتوضیح کے لئے اور احادیث کو بااعتبار سند کے چانچنے کے لئے انہی اصولوں کے پابند ہیں اور رہیں گے یہاں تک کہ شیعہ حضرات بھی محدثین کی قدر کرتے ہیں اور ان سے استدلال کرتے ہیں۔عامۃ المسلمین تو انہی اصولوں سے ہی حدیث کی صحت وضعف کی تعلیم وتفہیم حاصل کرتی ہے۔ اب اعتراض یہ ہوتا ہے کہ(غامدی صاحب)کے نزدیک تو تعامل امت حجت ہے جس کی بنا پر وہ قرآن کی ایک قرأت اور نماز کا طریقہ وغیرہ جیسے اہم مسائل کے مأخذ سمجھتے ہیں اصول حدیث پر تو تقریبا تمام امت کا اجماع ہے اس طرح تو غامدی صاحب کا اصول تعامل امت تو اس بے ہودہ موقف(اصول حدیث میں ترمیم)سے کرچی کرچی ہوجاتا ہے۔وللہ الحمد محدثین کے اصول پر ایک نظر :۔ بالعموم یہ خیال کیا جا تا ہے کہ حدیث کو پرکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے اسماء الرجال یعنی راوی کے حالات دیکھ لئے اگر ثقہ ہے تو حدیث صحیح ہوگی ورنہ ضعیف حالانکہ حدیث کو پرکھنے کے لئے سو سے زائد علوم ہیں اور ہر علم پر ایک تحریری کتاب موجودہے صرف ضعیف حدیث کی(49)اقسام ہیں(معرفۃ علوم الحدیث)علوم حدیث سے نابلد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بس سند ہی ایک ذریعہ ہے اور اس دھوکہ میں بھی پڑھ جاتے ہیں کہ کوئی بھی شخص کھڑا ہوجاتا ہے اور تین چار ثقہ راویوں کے نام جڑ دیتا ہے اور کچھ اچھے الفاظ پر مبنی کلام کو حدیث بنا کر پیش کردیتا ہے حالانکہ یہ بات سراسر لا علمی پر مبنی ہے ذیل میں ہم صرف ایک روایت مع نقد سند ومتن بطور تمثیل پیش کرتے ہیں۔ ’’عبد اللّٰه بن میمون حدثنا جعفر بن محمد الصادق
Flag Counter