Maktaba Wahhabi

32 - 124
یا ارمان کے۔جیسا کہ امام لغت زمحشری اپنی تفسیر کشّاف میں ذکر کرتے ہیں(قیل تمنّیٰ،قرأ)یعنی تمنّیٰ کے معنی قرأت کرنے اور تلاوت کرنے کے ہیں اور شاھد کے طور پر یہ شعر بھی پیش کیا : ’’تمنّیٰ کتاب اللّٰه اوّل لیلۃ‘‘ ’’تمنّیٰ داؤدالزبور علی رسل‘‘ (تفسیر الکشاف ج۳،ص۱۶۷) اور ٹھیک اسی طرح لسان العرب میں مذکور ہے کہ ’’تمنیٰ الکتاب قرأہ وکتبہ وفی التنزیل ’’الا اذا تمنیٰ القی الشیطان فی امنیتہ ‘‘ای قرأ وتلا۔۔۔۔وقال فی مرثیۃ عثمان رضی اللّٰه عنہ ’’تمنیٰ کتاب اللّٰه اول لیلۃ‘‘ ’’وآخرہ لاقی حمام المقادر ‘‘(دیکھئے لسان العرب جلد ۱۳ صفحہ ۲۰۳ تا ۲۰۴اور النھایہ فی غریب الحدیث جلد ۴ صفحہ ۳۱۲) لیکن حیرت ہے غامدی صاحب پر کہ اشعار و کلام عرب کو زبان کی تحقیق میں سندوحجت اور قرآن کے بعد سب سے زیادہ معتمد مانتے ہیں او پھر اسی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ لفظ تمنّیٰ کے معنی ہم نے اشعار و کلام ِ عرب سے واضح کر دئیے ہیں کہ غامدی صاحب جس کا انکار کر رہے ہیں اس سے ان کے خود ساختہ اصول کا رد ہو رہا ہے۔کسی نے صحیح کہا تھا’’ کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے یا یوں کہہ لیں کہ اسی کی لاٹھی اسی کے سر ‘‘ غامدی صاحب نے آگے دوتین لفظوں کی مزیدمثال پیش کی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں جو گفتگوہم نے ان دو لفظوں(تمنّیٰ النجم)پر کی ہے کافی و شافی ہے جس سے حقیقت بالکل واضح ہو گئی ہے اور غامدی صاحب کی خیانتوں کا انکشاف بھی ہوگیا ہے۔
Flag Counter