Maktaba Wahhabi

59 - 124
اس بات کی وضاحت اس روایت سے بھی ہوتی ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہا اگر تمہارے اور زید بن ثابت کے درمیان اختلاف ہوجائے تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو کیونکہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ہے(سنن الکبری للبیہقی ج۲ ص ۵۳۸رقم ۳۹۹۳)اس سے معلوم ہوا کہ قریش کی زبان کے علاوہ بھی قرآن کا نزول ہوا ہے کیونکہ اگر قرآن صرف قریش کی زبان میں نازل ہوتا تو اختلاف ہونے کاسوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ اعتراض غامدی:۔ غامدی صاحب کا اس حدیث پر چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ھشام بن حکیم فتح مکہ کے دن ایمان لائے۔تو اتنے عرصہ قرآن سبعہ احرف میں نازل ہوتا رہالیکن جلیل القدر صحابہ یہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اس بات کا علم نہیں رکھتے تھے اور فتح مکہ کے بعد انہیں اس بات کا علم ہوا یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی بات اتنے عرصے تک صحابہ عظام سے چھپی ہوئی ہو؟ جواب:۔ غامدی صاحب یہاں بے جا بات کررہے ہیں حالانکہ یہ کوئی ناممکن بات نہیں کیونکہ صحابہ کرام کو بتدریج دینی احکامات کی معرفت ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پاگل زانی عورت پر حد لگانے کا حکم دیا۔تو حضرت علی نے کہا اے امیر المؤمنین کیا آپ نہیں جانتے کہ کہ تین قسم کے اشخاص مرفوع القلم ہیں(یعنی ان پر کوئی حد نہیں)جس میں ایک پاگل ہے یہاں تک اسے عقل نہ آجائے یہ حدیث سننے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پاگل عورت کو چھوڑ دیا(ابو داؤد مع بذل المجہود کتاب الحدود جلد ۱۲ص ۴۷۲،۴۷۳) اسی طرح سبعہ احرف والی بات کا علم حضرت عمر کو کافی عرصہ بعد ہوا تو اس میں کونسی بڑی بات ہے جو تسلیم نہیں کی جاسکتی۔
Flag Counter