Maktaba Wahhabi

65 - 124
کی مدح کی ہو)النھایۃ فی غریب الحدیث جلد۳ص۱۹۷)اور اسی طرح ابن اثیر منکر کے بارے میں لکھتے ہیں : منکر ہر اس چیز کا نام ہے جس کو شریعت نے برا جانا ہو(یعنی اس کی مذمت کی ہو)یا اس کی حرمت یا کراہیت بیان کی ہو۔(النھایۃ فی غریب الحدیث جلد۵ص۱۰۰) لہٰذا اچھی اور بری بات کی معرفت انسان کی اپنی فطرت سے نہیں بلکہ شریعت سے ہوتی ہے اور انسان کی فطرت شریعت کا کوئی حصہ نہیں بلکہ یہ شریعت پر عمل پیرا ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر کوئی کہے کہ ہر معروف ومنکر کی پہچان شریعت نے نہیں کروائی تو اس کی یہ بات قرآن کے خلاف ہے کیونکہ اس کی اس بات سے نعوذباللہ دین نامکمل ہوکر رہ جاتا ہے جبکہ قرآن کہتا ہے ’’ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ‘‘(المائدہ آیت۳)ہم نے آج تمہارے لئے تمہارے دین(اسلام)کو مکمل کردیا۔اور اس سے پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مومنوں کی صفات قرآن میں بیان ہوئی ہے کہ وہ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں تو کیا نعوذبااللہ مومنین قرآن وسنت کے علاوہ کسی اور چیز کا حکم دیتے ہیں۔ اور اگر اچھی بری بات کا علم انسان کو اس کی فطرت سے ہوجاتا تو پھر مومنین کو اچھی بات بتانے کی اور بری بات سے آگاہ کرنے کی کیا ضروت تھی ؟اور اگر فطرت والی آیت یعنی سورہ الروم کی آیت نمبر ۳۰ کو غور وفکر کی نظر سے دیکھیں تو بات اور عیاں ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے’’ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ‘‘اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ‘‘یہاں فطرت کی نسبت اللہ تعالیٰ نے خود اپنی طرف کی ہے یعنی یوں کہا کہ اللہ کی فطرت ’’ تو اللہ کی فطرت کو اللہ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘ ہم خود فطر ت اللہ کو نہیں جان سکتے۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس فطرت کے بارے میں بتلایا ہے لہٰذا جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اور اپنے رسول کے ذریعے ان کے فرمان میں بیان فرمادیا ہے یہی دین فطرت ہے لہٰذا جو چیز شریعت بیان کرے وہ فطرت ہے نہ جو فطرت بیان کرے وہ شریعت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر بچہ
Flag Counter