Maktaba Wahhabi

72 - 114
نے یہ کہا ہے کہ بعد میں آنے والے خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے مرہون منت ہیں، اگر علی بن مدینی رحمہ اللہ کی یہ کتابیں باقی رہ جاتیں تو بالکل یہی کہتے کہ بعد میں آنے والے علی بن مدینی رحمہ اللہ کے علم کے محتاج ہیں۔ علی بن مدینی رحمہ اللہ کی کتابیں دیمک کی وجہ سے ضائع ہوگئیں۔مگر اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کا بھی حافظہ کمزور ہوگیا تھا یہ تو محض کتب کے ضائع ہونے کی بات تھی۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ سوء حفظ عارض بھی ہوتا ہے۔ جب ایسی صورت ہو تو محدثین کے نزدیک اس کے بعد کی روایات قابل قبول نہیں رہتیں الا یہ کہ اس کا کوئی مؤید ہو، اور جو اس عارضہ سے پہلے بیان کی ہیں تو وہ قابل قبول ہیں۔ سوء حفظ کے عارضے میں ایک پوزیشن یہ ہے کہ خلط ملط کرناجسے اختلاط کہا جاتا ہے ،ایک ہےحافظے کی کمزوری اور ایک ہے حافظے کا اختلاط یعنی صحیح اور غیر صحیح باتوں کا گڈ مڈ کردینا، اب جب یہ عارضہ پیش ہوتا ہے ،(اس موضوع پر مستقل کتابیں موجود ہیں کہ کن کن کو یہ عارضہ پیش آیا تھا ،الاغتباط من رمی بالاختلاط یہ علامہ برھان الدین الحلبی رحمہ اللہ کی معروف کتاب ہے۔ اسی طرح الکواکب النیرات بڑی جامع کتاب ہے۔ حواشی کے ساتھ۔ شیخ محمد طلعت کی کتاب معجم المختلطین ۔۔) اختلاط کی پوزیشن سوء حفظ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ صحیح بخاری میں مختلط راوی یہاں ایک بحث یہ بھی چلتی ہے کیا صحیح بخاری میں ایسے راویوں سے روایت ہے کہ جن کو اختلاط کا عارضہ پیش آگیا تھا۔ بالخصوص وہ روایات جو عارضے کے بعد کی ہیں ۔ اس بارے میں اختلاف ہے۔ علامہ ابن الصلاح ،علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں مختلطین کی وہ روایات ہیں جو
Flag Counter