Maktaba Wahhabi

34 - 114
لئے حیلہ سازی اختیار کرتا ہے ، ہمیں اعتدال والی بات کو لینا چاہئے۔ ثبوتِ عدالت کے حوالے سے جمہور کا مؤقف : امام بزار رحمہ اللہ کا مؤقف یہ ہے کہ اسی طرح جس راوی سے ایک جماعت روایت کرتی ہو تو اس راوی کی عدالت ثابت ہوجاتی ہے۔ بلکہ ابن قطان رحمہ اللہ کا بھی یہی مؤقف ہے، حافظ ذہبی،حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔ اب دیکھئے امام ابن القطان رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں:’’ ۔۔من قطع سدرۃ صوب اللّٰه رأسہ فی النار۔ قال: فیہ سعید بن محمد بن جبیر لا یعرف حالہ روی عنہ جماعۃ ۔۔۔۔ فالحدیث لاجلہ حسن ‘‘[1] جس نے بیری کا درخت کاٹا اللہ تعالی اس کے سر کو جہنم کی آگ میں داخل کرے گا۔فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں سعید بن محمد بن جبیر ہے، اس کا حال معلوم نہیں ہے،اس سے ایک جماعت نے روایت کی ہے۔ لہذا اس کی حدیث حسن ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابن القطان رحمہ اللہ کا مؤقف وہی ہے جو امام بزار رحمہ اللہ کا ہے۔ لیکن وہ اس پر قائم نہ رہے۔ دیکھئے وہ فرماتے ہیں: ’’ما صليت وراء أحد أشبه صلاة برسول الله - صلى الله عليه وسلم -من عمر بن عبد العزيز، فكان يحزر ركوعه قدر عشر تسبيحات، وسجوده كذلك وسكت عنه، ووهب هذا مجهول الحال، وأظن أن أبا محمد قنع فيه براوية جماعة عنه، فإنه قد روى عنه إبراهيم بن نافع وإبراهيم بن عمر بن كيسان، وهو شيء لا مقنع فيه، فإن عدالته لا تثبت بذلك‘‘[2]
Flag Counter