Maktaba Wahhabi

111 - 114
مذکورہ دونوں عبارتوں میں بھی فرق ہے اور ان کے مفہوم میں بھی فرق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعلی درجے کا قوی نہیں ہے حتی کہ یہاں تک بھی کہا گیا ہےکہ لیس بالقوی کی روایت حسن درجے سے کم نہیں ہوتی، اس سے مراد اعلی درجے کی توثیق کی نفی ہے، لیکن لیس بقوی سے مرادیہ ہے کہ یہ بالکل قوی نہیں ہے۔ یہ ضعیف ہے جس طرح لیس بثقةکےمعنی یہ ہے کہ ثقہ نہیں ہے ،لیکن لیس بالثقۃ کا معنی ہے کہ اعلی درجے کا ثقہ نہیں ہے۔ تو کتابوں کی مراجعت کے وقت یہ چیز بھی دیکھنی چاہئے۔ اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ لفظ استعمال کرتے ہیں :’’فیہ نظر ‘‘ یہ جرح ہے،اور ’’فی اسنادہ نظر‘‘ فی الجملہ جرح ہے ۔یعنی اس راوی کی بیان کردہ سند میں جرح ہے، بسا اوقات امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الضعفاء میں صحابہ کا ذکر کیا ہے، اور اس میں کہتے ہیں :فی حدیثہ نظر ، اب اس کے مفہوم دو لئے گئےہیں، ایک تو یہ ہے کہ یہ صغار صحابہ میں ہے اور نبی کا اس سے سماع نہیں ہے، فی حدیثہ نظر ، یعنی نبی سے حدیث میں سماع نہیں ہے، اس حوالے سے نظر ہے، یا دوسرا مفہوم صحابی سے پیچھے جو سند ہے، اس میں نظر ہے، یہ مقصد نہیں ہے کہ صحابی پر کلام ہے، اب دیکھئے کہ اویس قرنی ہیں ، ان کے فضائل میں صحیح مسلم میں حدیث موجود ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الضعفاء میں ذکر کرکےکہا ہے:فی اسنادہ نظر ، اب وہاں بھی مراد یہ ہے کہ ان سے جو روایت منقول ہے اس میں نظر ہے۔ اوس بن عبداللہ کے بارے میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے فی اسنادہ نظر کہا ہے، امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مقصد یہ ہے کہ ان کا عائشہ سے یا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے ۔ ’’ فی اسنادہ نظر ‘‘ اور ’’ فیہ نظر ‘‘ میں فرق ہے، لیکن یہاں بھی الفاظ کے نقل کرنے میں تسامح ہوجاتا ہے،اور ’’ فی اسنادہ نظر ‘‘ کے بجائے ’’فیہ نظر‘‘ نقل ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں راوی بالکل ایک کمزور ترین سطح پر چلا جاتا ہے۔ اس لئے امام بخاری رحمہ اللہ کے الفاظ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے
Flag Counter