میں اور نہ ان کا ان دونوں میں کوئی حصہ ہے اور نہ ان میں سے کوئی اس کا مدد گار ہے۔ اور نہ سفارش اس کے ہاں نفع دیتی ہے مگر جس کے لیے وہ اجازت دے‘‘[1]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
((نَفَی اللّٰهُ عَمَّا سِوَاہُ کُلَّ مَا یَتَعَلَّقُ بِہِ الْمُشْرِکُوْنَ۔ فَنَفٰی اَنْ یَّکُوْنَ لِغَیْرِہٖ مِلْکٌ اَوْ قِسْطٌ مِّنْہُ اَوْ یَکُوْنَ عَوْنًا لِّلّٰہِ۔ وَ لَمْ یَبْقَ اِلَّا الشَّفَاعَۃُ فَبَیَّنَ اَنَّھَا لَا تَنْفَعُ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّبُ کَمَا قَالَ:﴿وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لَمِنِ ارْتَضٰی﴾ فَھٰذِہِ الشَّفَاعَۃُ الَّتِیْ یَظُنُّھَا الْمُشْرِکُوْنَ ھِیَ مُنْتَفِیَۃٌ یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ کَمَا نَفَاھَا الْقُرْاٰنُ۔وَ اَخْبَرَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم اَنَّہٗ یَاْتِیْ فَیَسْجُدُ لِرَبِّہٖ وَ یَحْمَدُہٗ لَا یَبْدَاُ بِالشَّفَاعَۃِ اَوَّلًا ثُمَّ یُقَالُ لَہٗ:((اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَ قُلْ یُسْمَعْ وَ سَلْ تُعْطَ وَ اشْفِعْ تُشَفَّعْ))
’’ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے ان باتوں کی نفی کی دی جن سے مشرکین سند پکڑتے ہیں اور خصوصاً اس بات کی نفی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو آسمان و زمین میں کسی قسم کی قدرت ہو یا قدرت کا کچھ حصہ یا وہ اللہ کی کچھ مدد کرتے ہوں۔ باقی رہی سفارش، تو یہ بھی اُسے نفع دے گی جس کے بارے میں ربِّ کریم اجازت عطا فرمائے، جیسا کہ فرمایا: ’’وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اُس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو۔‘‘(الانبیاء:۲۸)۔ البتہ قیامت کے دن وہ شفاعت جس کے مشرکین قائل ہیں اُن کے حق میں نہ ہو سکے گی، کیونکہ قرآن کریم نے اس کی صراحت کے ساتھ غیر مبہم الفاظ میں تردید کی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ وہ قیامت کے دن اپنے رب تعالیٰ کے حضور پیش
|