Maktaba Wahhabi

72 - 234
کو کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا! میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں تیرے کام نہ آؤں گا۔‘‘ اس باب کے مسائل: 1۔ مذکورہ بالا دو آیات کی تفسیر[جن میں بے اختیار کو پکارنے سے منع کیا گیا ہے]۔ 2۔ غزوہ احد کا(مختصرسا)تذکرہ ہے۔ 3۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا؛ اور آپ کے پیچھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آمین کہا کرتے تھے۔ 4۔ جن پر بد دعا کی جا رہی تھی وہ بلاشبہ کافر تھے۔ 5۔ ان کفار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی بدسلوکی کی تھی اور آپ کو ایسی ایذائیں دی تھیں کہ دیگر کفار نے ایسا نہ کیا تھا۔ مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کرنا، آپ کے قتل کے درپے ہونا اور مسلمان شہداء کا مثلہ کرنا، حالانکہ وہ شہداء ان کفار کے عم زاد اور رشتہ دار بھی تھے۔[انہوں نے اس رشتے کا بھی لحاظ نہ کیا]۔ 6۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بد دعا کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی:﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ﴾ 7۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایاآپ کو یہ اختیار بھی نہیں کہ:﴿أو یتوب علیہِم أو یعذِبہم﴾’’کہ آپ ان کی توبہ قبول کریں یا سزا دیں۔‘‘ چنانچہ پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کردیا اور وہ ایمان لے آئے۔ 8۔ نزول حوادث کے موقع پر قنوت نازلہ پڑھنے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ 9۔ نماز میں جن لوگوں پر بد دعا کی جائے ان کا اور ان کے آبا و اجداد کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ 10۔ قنوت نازلہ میں کسی مخصوص آدمی کا نام لے کر اس پر لعنت کرنا جائز ہے۔ 11۔ ﴿وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ کے نزول کا قصہ۔[کہ آپ نے تمام قریبی رشتہ داروں فردافرداً دین کی دعوت دی]۔ 12۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعوت میں سنجیدہ محنت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون کہا گیا۔ اسی طرح آج بھی اگر کوئی توحید کی دعوت دے تو اسے بھی اسی قسم کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 13۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریبی اور دور کے رشتہ داروں سے یہ فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔‘‘ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سید المرسلین ہونے کے باوجود اپنی لخت جگر اور سیدہ نسا العالمین سے فرما رہے ہیں کہ:’’ اے فاطمہ بنت محمد! میں اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔‘‘جب آپ جنتی خواتین کی سردار کے کچھ کام نہیں آسکتے تو اور ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا۔ ان صراحتوں کی روشنی میں آج کل کے حالات پر غور کیا جائے کہ اس غلط فہمی میں(کہ اللہ کے ہاں انبیا اور صالحین کچھ کام آسکتے ہیں) عوام ہی نہیں بلکہ خواص بھی مبتلا ہیں، تو توحید کی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے اور یہ بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ آج کل لوگ دین سے کس قدر دور ہیں۔
Flag Counter