Maktaba Wahhabi

68 - 234
اس باب کی شرح: باب: غیر اللہ کو پکارنا یا کسی اَور سے فریاد کناں ہونا شرک ہے۔ جب آپ سابقہ باب میں بیان کردہ ضابطہ ؛ جس میں شرک اکبر کی حد کا تعین ہے؛کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے امور میں ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ [بقیہ حاشیہ]: ہے۔ اس میں کسی بھی غیر اللہ کو ذرہ برابر دخل نہیں ہے تمام کائنات اس کے قبضہ میں، اس کی تسخیر اور اس کے تصرف میں ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ زندگی، موت اور پیدائش اسی کے ہاتھ میں ہے۔ چونکہ یہ تمام اُمور فقط اللہ تعا لیٰ کے اختیارو قدرت میں ہیں، اس لیے اس کی تعریف و ثناء میں بہت سی آیات موجود ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:﴿یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ﴾’’لوگو، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں، انھیں یاد رکھو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمھیں آسمان او رزمین سے رزق دیتا ہو، کوئی معبود اس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھو کا کھا رہے ہو؟(فاطر:۳)۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:﴿وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ٭اِنْ تَدْعُوْھُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآئَ کُمْ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَ لَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ٭﴾(فاطر:۱۳)’’اسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرہ کا(کھجور کی گٹھلی کے چھلکے) کے مالک بھی نہیں ہیں، انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے اورقیامت کے روزوہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے، حقیقت ِ حال کی ایسی صحیح خبر ایک خبر دار کے سواکوئی نہیں دے سکتا۔‘‘ علّامہ رحمۃ اللہ علیہ موصوف نے یہاں بہت سی آیات نقل کی ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ: ’’تمام آیات میں لفظ ’’دُوْنِہٖ‘‘ سے ہر وہ غیر اللہ مراد ہے جس کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ استمداد کے قابل ہے، چاہے کوئی ولی ہو یا کوئی شیطانی طاقت جو خود تو اپنی مدد نہیں کر سکتا، وہ بھلا دوسروں کی کیا مدد کرے گا‘‘؟۔ علّامہ رحمۃ اللہ علیہ مزید فر ماتے ہیں کہ: ’’یہ خیال کرنا کہ اولیاء اللہ کو مرنے کے بعد کسی قسم کے تَصّرف پر کوئی قدرت حاصل ہے،یہ ان کی زندگی میں تصرفات کا عقیدہ رکھنے سے بھی زیادہ شنیع[برا] اور بدعتی عقیدہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا ہے کہ:﴿اِِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ﴾ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی فوت ہونے والے ہیں۔‘‘(الزمر:۳۰)۔اور ارشاد فرمایا:﴿اللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا﴾ ’’وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت رُوحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے۔‘‘(الزمر:۴۲)۔ …۔ ’’انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال مُنقطع ہو جاتے ہیں۔‘‘(صحیح مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی)۔ یہ اور اس کے علاوہ دوسری آیات و احادیث اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ موت کے بعد انسان کی حرکت وحِّس مُنقطع اور ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی ارواح اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہوتی ہیں اور ان کے اعمال میں کمی بیشی کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ میت کو تو اپنی ذات پر بھی کسی قسم کے تصرف کا کوئی اختیار نہیں ہوتا وہ دوسروں کے معاملات میں کس طرح تصرف کریگی؟تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ ارواح قطعی طور پر میرے قبضے میں ہیں اور ملحد و اصحابِ بدعت یہ کہتے ہیں کہ ان کو علی الاطلاق تصرفات حاصل ہیں: ’’کہو تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ‘‘؟۔(البقرۃ:۱۴۰)۔ علامہ رحمۃ اللہ علیہ موصوف اس سے آگے فرماتے ہیں کہ: ’’یہ عقیدہ رکھنا کہ غیر اللہ کو بلیات و شدائد کو رفع کرنے اور حاجات کے پورا ہونے میں کچھ اثر اور قدرت حاصل ہے، جیسا کہ دَور جاہلیت کے عرب کہتے تھے یا آج اس دَور کے جہال صوفیاء کا عقیدہ ہے اور وہ ان کو پکارتے بھی ہیں۔ یہ عقیدہ سراسر باطل اور منکرات میں سے ہے اور جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ غیر اللہ میں سے اللہ کے کسی نبی یا ولی یا کسی روح کو کسی کرب ومصیبت کے دور کرنے یا حاجت روائی کرنے کی طاقت حاصل ہے یا وہ کسی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں یا اس باب میں ان کو کوئی اثر و نفوذ حاصل ہے تو ایسا شخص جہالت کی خطرناک وادی میں گامزن ہے اور دوزخ کے کنارے کھڑا ہے۔ ان کا یہ عقیدہ رکھنا کہ ’’یہ صرف کرامات ہیں ‘‘ تو اللہ تعا لیٰ کی ذات بے نیاز ہے کہ اس کے اولیاء میں اس قسم کی کوئی طاقت موجود ہو۔ یہ تو اصنام و اوثان کے پچاریوں کاعقیدہ ہے، اس کی نشاندہی خود قرآن کریم نے کی ہے کہ وہ غیر اللہ کو صرف سفارشی اور صاحب کرامت سمجھتے تھے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہے کہ: ھٰوئُ لآئِ شُفَعَآئُ نَا عِنُدَاللّٰہ یعنی ’’یہ صرف ہمارے سفارشی ہیں ‘‘(یونس:۱۸)۔ ’’ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں۔‘‘(الزمر:۳)۔ کیا میں اسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنالوں ؟ حالانکہ اگر اللہ رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ ان کی شفاعت میرے کسی کام آسکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں۔‘‘(یٰس۔۲۳)۔
Flag Counter