Maktaba Wahhabi

25 - 234
حِسَابٍ وَلَا عَذابٍ۔))ثُمَّ نَھَضَ فَدَخَلَ مَنْزِلَہٗ۔ فَخَاضَ النَّاسُ فِیْ اُو لٰئِکَ۔ فَقَالَ بَعْضُھُمْ:((فَلَعَلَھُمُ الَّذِیْنَ صَحِبُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم۔وَقَالَ َ بَعْضُھُمْ: فَلَعَلَھُمُ الَّذِیْنَ وُلِدُوْا فِی الاِسْلَامِ فَلَمْ یُشْرِکُوْا بِاللّٰهِ شَیْئاً وَذَکَرُوْا اَشْیَآئَ۔ فَخَرَجَ عَلَیْھِمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَاَخْبَرُوْہُ۔ فَقَالَ:((ھُمُ الّذِیْنَ لَا یَسْتَرِقُوْنَ وَ لَا یَکْتَوُوْنَ وَ لَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَ عَلیٰ رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔)) فَقَامَ عُکَّاشۃُ ابْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ: اُدْعُ اللّٰهَ اَنْ یَجْعَلَنِیْ مِنْھُمْ۔ قَالَ:((اَنْتَ مِنْھُمْ))۔ ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ اٰخَرُ فَقَالَ:((اُدْعُ اللّٰهَ اَنْ یَجْعَلَنِیْ مِنْھُمْ؟ فَقَالَ:((سَبَقَکَ بِھَا عُکَّاشَۃُ۔))[1] ’’میں ایک دفعہ سعید بن جبیر کے پاس تھا کہ سعید کہنے لگے: آج رات ستارے کو ٹوٹتے ہوئے تم میں سے کس نے دیکھاہے؟ حصین نے کہا کہ ہاں میں نے دیکھا ہے۔ پھر کہنے لگے کہ میں نماز میں مشغول نہ تھا بلکہ مجھے کسی چیز نے کاٹ کھایا تھا جس کی مجھے سخت تکلیف تھی۔ انہوں نے کہا پھر تم نے کیا کِیا؟ انہوں نے کہا کہ میں نے جھاڑ پھونک سے کام لیا۔ انہوں نے کہا یہ کیوں کیا؟ میں نے کہا شعبی سے مروی ایک حدیث کی بناء پر۔ انہوں نے پوچھا وہ کیا حدیث ہے جو انہوں نے بیان کی ہے؟ میں نے کہا:’’ہم سے بریدہ بن الحصیب رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث بیان کی کہ نظر بد اور کسی زہریلی چیز کے کاٹ کھانے کے سوا اور کہیں جھاڑ پھونک یا دم مفید نہیں۔ جس شخص نے جو سنا اسی پر اکتفا کیا اور اسی پر عمل پیرا رہا تو اس نے بہت اچھا کیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا: مجھے بہت سی اُمتیں دکھائی گئیں۔ میں نے دیکھا کہ کسی نبی کے ساتھ تو بہت بڑی جماعت ہے اور کسی نبی کے ساتھ صرف ایک یا دو ہی آدمی ہیں اور ایسے نبی کو بھی دیکھا جس کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا۔ اچانک میرے سامنے ایک انبوہ ِ کثیر آیا، میں نے خیال کیا کہ کہ میری امت ہو گی لیکن مجھ سے کہا گیا کہ یہ سیدنا مُوسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے۔ اس کے بعد میں نے ایک بہت ہی بڑے انبوہ کو دیکھا، مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہے اور آپ کی امت میں ان کے ساتھ ستر ہزار افراد وہ ہیں جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ واقعات سُناکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آپس میں ان ستر ہزار افراد کے بارے میں قیاس آرایئاں کرنے لگے۔ بعض کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔ بعض صحابہ ِ کرام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اسلام میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا، اس کے علاوہ صحابہ ِ کرام رضی اللہ عنہم نے اور توجیہات بھی کیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی مختلف آراء کا اظہار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بلکہ یہ وہ افراد ہوں گے جو دَم نہیں کرواتے اور نہ وہ داغ لگواتے ہیں اور نہ
Flag Counter