Maktaba Wahhabi

220 - 234
صحیح مسلم میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ۔)) قال عِمران فلا أدرِی: أذکر بعد قرنِہِ مرتینِ أو ثلاثا ؛ ثم إِن بعدکم قومًا یَّشہدون ولا یستشہدون، ویخونون ولا یؤتمنون، وینذرون ولا یوفون، ویظہر فِیہِم السِمن۔))[1] ’’ میری امت کا سب سے بہتر زمانہ، میرا زمانہ ہے۔ پھر وہ جو اس کے بعد ہوگا، پھر وہ جو اس کے بعد ہوگا۔‘‘ حضرت عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ آپ نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا تھا، یا تین کا ؟ پھر آپ نے فرمایا: ’’ پھر تمہارے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو بلا طلب گواہی دیں گے، خائن ہوں گے، امانت دار نہیں ہوں گے، نذر مانیں گے تو پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہوگا۔‘‘ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ۔ ثُمَّ یَجِیْئُ قَوْمٌ تَسْبِقَ شَھَادَۃُ اَحَدِھِمْ یَمِیْنَہٗ وَ یَمِیْنُہٗ شَھَادَتَہٗ۔))[2] ’’ بہترین دَور وہ ہے جس میں میں خود موجود ہوں، پھر وہ دَور جو میرے بعد آنے والا ہے، پھر وہ دَور جو اُس کے بعد آئے گا، اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کی گواہی قسم سے اور قسم گواہی سے پہلے ہو گی‘‘[3] حضرت ابراھیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:’’ ہمارے بچپن میں ہمارے بزرگ گواہی اور عہد پر قائم رہنے کی تربیت کی خاطر ہمیں سزا دیا کرتے تھے۔‘‘ اس باب کے مسائل: 1۔ اپنی قسم کی حفاظت کرنے کی وصیت کی گئی ہے۔ 2۔ یہ بتایا گیا ہے کہ خواہ مخواہ اور جھوٹی قسم اٹھانے سے مال کی قیمت تو اچھی مل جاتی ہے لیکن برکت ختم ہو جاتی ہے۔ 3۔ اُس شخص کو سخت ڈانٹ پلائی گئی ہے جو مال خریدتے اور بیچتے وقت خواہ مخواہ قسمیں اٹھاتا ہے۔ 4۔ گناہ میں ملوث ہونے کے امکانات انتہائی قلیل اور تھوڑے ہوں اور وہ پھر بھی گناہ کے ارتکاب پر سخت تنبیہ۔
Flag Counter