Maktaba Wahhabi

214 - 234
’’جو شخص اس عقیدے کے علاوہ کسی دوسرے عقیدے پر مرا، وہ میری امت سے نہیں۔‘‘ اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے: إِن أول ما خلق اللّٰه تعالیٰ القلم؛ فقال لہ: اکتب ؛ فجری فِی تِلک الساعۃِ ما ہوکائِنِ إلی یومِ القِیامۃِ۔))(مسند احمد: 5/ 317) ’’ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اور اسے حکم دیا: لکھ۔ چنانچہ اس نے اسی وقت قیامت تک ہونے والی ہر بات لکھ دی۔‘‘ اور ابن وہب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فمن لم یؤمِن بِالقدرِ خیرِہِ وشرِہِ أحرقہ اللّٰه بِالنارِ۔))[1] ’’جو شخص تقدیر کی بھلائی اور برائی پر ایمان نہ رکھے، اللہ اسے دوزخ میں جلائے گا۔‘‘ مسند احمد اور سنن میں ابن الدیلمی سے روایت ہے، کہتے ہیں: ’’ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کی: میرے دل میں تقدیر کے متعلق کچھ شبہات ہیں، آپ کوئی حدیث بیان فرمائیں، تاکہ اللہ تعالیٰ میرے دل سے ان شبہات کو ختم کردے۔تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((لو أنفقت مِثل أحد ذہبا ما قبِلہ اللّٰه مِنک حتی تؤمِن بِالقدرِ وتعلم أن ما أصابک لم یکن لِیخطِئک وما أخطأک لم یکن لِیصِیبک، ولو مت علی غیرِ ہذا لکنت مِن أہلِ النار۔))[2] ’’اگر تم احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردو تو تمہارا یہ عمل اس وقت تک قبول نہ ہو گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لاؤ اور ساتھ یہ یقین نہ رکھو کہ جو تکلیف تمہیں پہنچنے والی ہے، وہ تم سے ٹل نہیں سکتی اور جو مصیبت ٹل گئی وہ کبھی تم تک پہنچ نہیں سکتی۔ اگر تمہارا عقیدہ اس کے خلاف ہوا اور تم اسی طرح مرگئے تو تم جہنمیوں میں سے ہو گے۔‘‘ ابن دیلمی کہتے ہیں: میں اس کے بعد عبداللہ بن مسعود، حذیفہ بن یمان اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس گیا(اور ان کو اپنے شبہات سے آگاہ کیا) تو انہوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حدیث سنائی۔اسے امام حاکم نے روایت کیا اورصحیح کہا ہے۔ اس باب کے مسائل 1۔ اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے۔ 2۔ تقدیر پر ایمان لانے کی صورت اور کیفیت بھی واضح ہوئی۔ 3۔ تقدیر پر ایمان نہ لانے والے کے تمام اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ 4۔ تقدیر پر ایمان لانے کے بغیر لذت ایمان سے لطف اندوز نہیں ہوا جاسکتا۔
Flag Counter