Maktaba Wahhabi

199 - 234
1۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا میں استثناء کی ممانعت ہے[یعنی یوں نہیں کہنا چاہیے کہ یا اللہ!تو چاہتا ہے تو مجھے بخش دے]۔ 2۔ اس کی علت بھی واضح ہوئی۔[کہ ایسا کہنے سے انسان کی بے پروائی اور تکبر کا اظہار ہوتا ہے۔] 3۔ پورے وثوق کے ساتھ دعا کرنی چاہیے۔ 4۔ اور دعا میں رغبت اور دلی میلان بھی بہت زیادہ ہونا چاہیے۔ 5۔ اس کی علت بھی بیان ہوئی۔ اس باب کی شرح: باب: یا اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھے بخش دے؛ کہنا درست نہیں تمام تر امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں اور اس کی مشئیت اور ارادہ کے تحت ہیں۔ تمام دینی مطالب جیسے رحمت کا سوال؛ مغفرت کا سوال ؛ اور ان دنیاوی مطالب کا سوال جو دین پر معاون و مددگار ہوں ؛ جیسے: عافیت اور رزق اوران سے متعلق کسی اور چیز کا سوال؛ ان تمام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ بندہ یہ چیزیں گریہ و زاری اور الحاح و آہ و بکاہ کے ساتھ سوال کرے؛ اللہ تعالیٰ سے ایسی چیزوں کا سوال کرنا عین عبادت اور اس کا مغز ہے۔ اور ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک پختہ عزم کے ساتھ اور حقیقی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے نہ مانگا جائے۔ کیونکہ ایسی چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی مرضی اور چاہت کے ساتھ معلق نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ سے مانگنا تو مامور بہ ہے۔ اوریہ صرف اور صرف بھلائی ہی بھلائی ہے؛ اس میں کوئی ضرر اور نقصان نہیں ؛ اور نہ ہی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بعض متعین مطلوبات؛ جن کے بغیر مصلحت اور منفعت کا حاصل ہونا ناممکن ہوتاہے؛اور جن کے حصول کے بارے میں انسان دو ٹوک طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا؛ اور اللہ تعالیٰ کی مشئیت کے ساتھ معلق کرنے میں کیا فرق ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ جب وہ اپنے رب سے دعا کرے؛ تو دو کاموں میں سے جو چیز بہتر ہو اسے اللہ تعالیٰ کے اختیار پر چھوڑ دے۔ جیسا کہ ایک ماثور دعا میں ہے: ’’اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو؛ اور مجھے موت دیدے جب میرے لیے موت بہتر ہو۔‘‘ اور جیسے دعائے استخارہ ہے۔ اس انتہائی باریک اور لطیف و بدیع فرق کو سمجھنا چاہیے کہ وہ نفع بخش امور جن کا فائدہ مند ہونا معلوم شدہ ہے؛ ان کی طلب میں کیا فرق ہے ؛ جب انسان کوئی ایسی چیز مانگتا ہے تو وہ دو ٹوک طور پر مانگتا ہے؛ اسے اللہ تعالیٰ کی مرضی پر نہیں چھوڑتا۔ اور جب انسان کوئی ایسی چیز مانگتا ہے جس کے انجام کی بابت اسے کوئی علم نہیں ؛ اور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ اس کا نفع زیادہ ہے یا نقصان ؛ تو اس وقت مانگنے والا ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر چھوڑ دیتا ہے جو ہر ایک چیز کے حقائق کو جانتا ہے؛ اور ہر ایک چیز اس کی قدرت میں ہے۔ اور وہ اپنی رحمت اور مہربانی سے ان کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
Flag Counter