Maktaba Wahhabi

194 - 234
اس باب کی شرح: اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کا بیان اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاء الْحُسنٰی فَادْعُوہ بِھَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یلحدون فی اَسْمَائِہ﴾[الاعراف180] ’’اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں، پس تم اسے انہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں سے دور رہو جو اس کے اسماء گرامی میں الحاد(کجی)کرتے ہیں ‘‘[1] توحید میں اصل یہ ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ثابت کی ہے؛ یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسماء اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کئے ہیں ؛ انہیں ثابت ہی مانا جائے۔ اور ان جلیل القدر اسماء کے معانی اور خوبصورت معارف کی معرفت حاصل کی جائے۔ اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے؛اور ان اسماء کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کو پکارا جائے۔ پس جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے اپنے دین یا دنیا میں سے کسی بھی چیز کا طلب گار ہو؛ اسے چاہیے کہ اپنی حاجت کے مناسب اسم گرامی کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔ مثال کے طور پر: رزق کے حصول کے لیے اسم رزاق کے وسیلہ سے دعا کرے؛ اوررحمت کے حصول کے لیے رحمن اوررحیم اسمائے مبارکہ کا وسیلہ اپنائے مزید کسی خیر و بھلائی کے ’’البر؛ الکریم ؛ العفو؛ الغفور ؛ التواب وغیرہ کے اسماء کا وسیلہ اختیار کیا جائے۔ اور اس سے بھی افضل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے اپنی عبادت میں دعا کرے؛ اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی کے معانی ومفاہیم کو اپنے ذہن میں رکھے۔ اور ان کو دل میں اچھی طرح سے جگہ دے۔ تاکہ ان کے آثار اور مقتضیات سے دل متأثر ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سے بھر جائیں۔ مثال کے طور پر:[جب] اللہ تعالیٰ کی عظمت؛ کبریائی ؛ اور جلال و بزرگی اور ہیبت[والے اسماء ذکر کئے جائیں تو ان] سے اس کی تعظیم میں دل بھر جائیں اور ان میں اللہ تعالیٰ کا جلال جاگزیں ہو جائے۔ اورالجمال ؛ البر؛ احسان ؛ رحمت اورجود و کرم کے اسماء کا ذکر کیا جائے تو دل اللہ تعالیٰ کی محبت ؛ حمد و ثناء شوق اورشکر سے بھر جائیں۔ اور جب عزت و حکمت؛ علم و قدرت والے اسماء کا تذکرہ ہو تواس کے سامنے دل خشوع و خضو ع سے؛اور انکساری سے بھر جائیں۔ اورجب علم ؛ خبر؛ احاطہ ؛مراقبہ اور مشاہدہ والے اسماء کا ذکر ہو تو دل حرکات و سکنات میں اللہ تعالیٰ کی نگہبانی اور اس کی حفاظت و نگہداشت سے بھر جائیں۔ ان میں کوئی برا ارادہ اور خیال نہ آئے۔
Flag Counter