Maktaba Wahhabi

173 - 234
اس باب کے مسائل 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آباؤاجداد کی قسم اٹھانا منع ہے۔ 2۔ اور اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھوانے والے کو چاہیے کہ وہ اس قسم کو تسلیم کرکے معاملہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے۔ 3۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھوانے کے بعد بھی راضی نہ ہو؛ اس کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس باب کی شرح: اللہ تعالیٰ کی قسم پر اکتفانہ کرنے والے کا حکم اس سے مراد یہ ہے کہ جب آپ اپنے فریق مخالف کو قسم دیں ؛ اوروہ سچائی و صداقت میں معروف ہو؛ یا پھر ظاہری طور پر وہ نیک انسان ہو خیر و بھلائی پر ہو؛ تو اب آپ پر واجب ہو جاتا ہے کہ اس کے قسم اٹھانے کے بعد قناعت کرلیں ؛ اور اس کی بات پر راضی ہو جائیں۔ اس لیے کہ اب آپ کے پاس کوئی ایسی یقینی چیز نہیں ہے جس سے اس کی قسم کو رد کر سکیں۔ مسلمانوں کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ وہ رب سبحانہ و تعالیٰ کی تعظیم بجالاتے اور اس کی عظمت و جلال کا خیال رکھتے چلے آئے ہیں۔پس آپ پر واجب ہوتا ہے جب کوئی اللہ کا نام لیکر قسم اٹھا لے ؛تو اب اللہ کے نام پر راضی ہو جائیں۔ اوریقین کرلیں۔ ایسے ہی اگر آپ کسی کے سامنے اللہ کا نام لیکر قسم اٹھائیں ؛ اوروہ اس پر راضی نہ ہو ؛ بلکہ وہ مطالبہ کرے کہ اپنی بیوی کی طلاق پر قسم اٹھاؤ۔ یا پھر اپنے اوپر عذاب آنے کی بد دعا کرو؛ تویہ مطالبہ بھی اس وعید میں داخل ہے۔کیونکہ اس میں بے ادبی اوراللہ تعالیٰ کی تعظیم و توقیر کی خلاف ورزی ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے تجاوز ہے۔ ہاں جو انسان جھوٹ بولنے/جھوٹی قسم اٹھانے؛ اور فسق و فجور میں معروف ہو؛ اور ایسی بات پر قسم اٹھائے جس میں آپ کو اس کے جھوٹا ہونے کا پکا یقین ہو؛ تو اب اس کو جھٹلانا اس وعید میں داخل نہیں ؛ کیونکہ اس کا جھوٹا ہونا طے شدہ ہے۔ اوریہ کہ اس انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی اتنی تعظیم نہیں کہ وہ قسم اٹھاکر اس پر لوگوں کو مطمئن کرسکے۔ پس اس قسم کے معاملات و واقعات اس وعید سے خارج ہیں ؛ کیونکہ اس کا جھوٹا ہونا یقینی طور پر معلوم ہے۔ واللہ اعلم
Flag Counter