Maktaba Wahhabi

122 - 234
اور بخاری اور مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا عَدْوٰی وَ لَا طِیَرَۃَ وَ یُعْجِبُنِی الْفَالُ۔)) قَالُوْا: وَ مَا الْفَالُ؟ قَالَ:((اَلْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ۔))[1] ’’کوئی بیماری متعدی نہیں۔ نہ بدفالی و بدشگونی کی کچھ حقیقت ہے البتہ مجھے فال پسند ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کی: فال سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: عمدہ اور بہترین بات(سن کر حسن انجام کی امید رکھنا)۔‘‘ سنن ابی داؤد میں صحیح سند کے ساتھ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ آپ نے فرمایا: ((ذُکِرَتِ الطِّیَرَۃُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم فَقَالَ:((أَحْسَنُھَا الْفَآلُ ؛ وَ لَا تَرُدُّ مُسْلِمًا فَإِذَا رَاٰی أَحَدُکُمْ مَا یَکْرَہُ فَلْیَقُلْ:((اَللّٰھُمَّ لَا یَاْتِیْ بِالْحَسَنٰاتِ اِلَّا أَنْتَ وَ لَا یَدْفَعُ السَّیِّأٰتِ إِلَّا أَنْتَ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِکَ۔))[2] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدفالی اور بدشگونی[3] کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ان سب سے بہتر فال ہے اور یہ کسی مسلمان کو اس کے مقصودسے روک نہ دے۔ چنانچہ جب کوئی شخص ناپسندیدہ چیز دیکھے تو یہ دعا کرے: ’’یا اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائیاں لا سکتا ہے نہ کوئی برائیوں کو دور کرسکتاہے۔ اور تیری توفیق کے بغیر ہم میں بھلائی کی طاقت ہے نہ برائی سے بچنے کی ہمت۔‘‘ اور ابو داؤد میں ہی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلطِّیَرَۃُ شِرْکٌ الطِّیَرَۃُ شِرْکٌ وَمَا مِنَّا إِلَّا …۔وَ لٰکِنَّ اللّٰهَ یُذْھِبُہٗ بِالتَّوَکُّلِ۔))[4] ’’بدفالی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے(بتقاضائے بشریت)ایسا وہم نہ ہوتا ہو … مگر اللہ رب العزت توکل کی وجہ سے اس کو رفع فرمادیتا ہے۔‘‘
Flag Counter