Maktaba Wahhabi

177 - 206
چنانچہ اس امت کے سلفِ صالحین کا پہلا گروہ صحابہ کرام کا تھا،جن کے دور کو خیر القرون کہا گیا تھا، پھر ان کے بعد تابعین اور بعد میں آنے والے تمام أئمہ ہدایت اس بات پر مجمع اور متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کیلئے جو اسماء وصفات بیان فرمادیئے ان کا اثبات اور اقرار واعتراف کیاجائے،ان تمام کو ان کے معنیٔ ظاہر پر محمول کیاجائے،وہ معنیٔ ظاہر جو اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہے،جس میں کسی قسم کی تحریف،تعطیل،تکییف یاتمثیل کا ارتکاب نہ کیاجائے ۔یہ ان لوگوںکااجماع ہے جن کا خیر القرون ہونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان سے منصوص ہے، جن کے اجماع کو لازمی حجت قرار دیاگیا ہے،بلکہ ان کے اجماع کا حجت ہونا کتاب وسنت کا مطلوب ومقتضی ہے۔نصوصِ صفات کے قواعد کی بحث کے قاعدہ نمبر۴ میں اس اجماع کی نقل پیش کی جاچکی ہے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ امام ابو الحسن الاشعری اور دیگر أئمہ مسلمین میں سے کوئی بھی اپنی ذات کے بارہ میں معصوم عن الخطأ ہونے کا دعویدارنہیں ہے،انہیں امامتِ دین کا شرف ومرتبہ تب ہی حاصل ہواجب انہوں نے اپنے نفوس کی قدر پہچانی اور انہیں جائز وصحیح مقام پر(بلاافراط وتفریط) قائم وفائز رکھا ۔ ان کے دلوں میں کتاب وسنت کی صحیح تعظیم تھی جس کی بناء پر وہ شرفِ امامت کے مستحق بن گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: [وجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَىِٕمَّۃً يَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا۝۰ۣۭ وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يُوْقِنُوْنَ۝۲۴ ][1]
Flag Counter