رکھی جاتی ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ بدعت اس کے ذہن وقلب میں ایک خلفشار پیدا کردیتی ہے اور دین میں بگاڑ پیدا کردیتی ہے ، اور اس فساد و بگاڑ کی جڑ یہ ہے کہ وہ بدعتی اپنے تئیں یہ سمجھنے لگتا ہے کہ شریعت میں اس کے لئے کوئی خاص فائدہ والی بات نہیں ہے ، اور اس( سوچ کی ) وجہ یہ ہے کہ اصل اور نقل دونوں ایک دل میں یکجا نہیں ہوسکتے(یعنی یا تو شریعت رہے گی جو کہ اصل ہے یا بدعت رہے گی)"۔ اہل مغاربہ (یعنی مراکش ، تیونس وغیرہ ) کے ایک عالم نے بڑی قابل غور بات کی ہے ، فرماتے ہیں : " نوجوانوں کا ایسی کتابوں سے نظریاتی سیرابی حاصل کرنا، سلف صالحین کے پاکیزہ علم ومنہج سے استفادہ سے محروم کردیتا ہے جوکتابیں قرآن وحدیث اور آثارِصحابہ سے کشید کردہ صحیح علم پر مبنی نہ ہوں بلکہ محض تجربہ اور شخصی افکار پر مرتب ہوں ، کیونکہ دو متضاد چیزوں کا یکجا ہونا ممکن نہیں ، اور ہم دیکھتے ہیں کہ نظریاتی بیماری کی علامات آہستہ آہستہ ان پر ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں ، تو (سب سے پہلے) وہ تنہاپسند ی کا شکار ہوجاتے ہیں جسے وہ بزعم خود معاشرے سے ہجرت کرجانا یا کنارہ کشی اختیار کرنا قرار دیتے ہیں، پھر وہ مساجد میں آنا اور ان اماموں کی اقتداء میں نماز ادا کرنے چھوڑ دیتے ہیں جنہیں وہ حکومت کا ملازم خیال کرکے حکومت کا ایجنٹ سمجھتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ یہ تو حکومت سے تنخواہ لیتا ہے، جبکہ در حقیقت یہ سب شیطان کی چالیں ہیں تاکہ وہ آگے چل کر انہیں سب سے بڑے فتنہ میں ڈال دے، اور ابھی چند ماہ یا سال ہی گزرتے ہیں کہ بیماری اپنی گرفت مکمل کر لیتی ہے اور یہ لوگ حکام کو اور جو بھی ان حکام کے ساتھ ہیں سب کو کافر قرار دینا شروع کردیتے ہیں ، پھر یہ بیماری مزید بڑھتی ہے اور یہ لوگ پورے معاشرہ ہی کو کافر قرار دیتے ہیں ، اور اس وقت یہ نادان لوگ اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ ایسا کر کے وہ درحقیقت یہود و نصاری جیسے دشمنان دین کا بھلا کر رہے ہیں ، اور پھر انہی کی وجہ سے کسی بھی شہر اور ملک میں دعوت دین ابھی ابتدائی مرحلہ میں ہوتی ہے کہ اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے اور دور حاضر میں حقیقت حال اس بات کی شاہد ہے[1]۔ |