اقرار ہے ، جبکہ اگر ایسا درست ہوتا تو قریش کے مشرکین کبھی بھی اس کا انکار نہ کرتے ، لیکن انہوں نے (اس کا انکار کیا [1]اور ) کہا کہ: {أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلٰهًا وَاحِدًا } (ص: 5)، ترجمہ: "کیا اس نے سب معبودوں کو ایک ہی معبود بنا رکھا ہے؟"۔ 12۔ (عصر حاضر کے ) مسلمانوں کے اکثر (سطحی قسم کے ) دانشور حضرات کا یہ خیال ہے کہ کلمہ توحید کا سب سے پہلا تقاضا اور مفہوم توحید حاکمیت یعنی اللہ عزوجل کو حکم میں یکتا و تنہا تسلیم کرنا ہے ، [2]جبکہ اگر یہ درست ہوتا تو کفار کبھی بھی کلمہ توحید کا انکار نہ کرتے ، بلکہ یہ تو ان کے لئے زیادہ آسان اور ہلکا تھا کہ وہ مال اور بادشاہت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کرتے اور اس کے بدلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کلمہ توحید کے حقیقی معنی یعنی توحید عبادت سے دستبرداری اختیار کرلیتے، نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے کوئی جھگڑا مول لیتے اور نہ ہی مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں روڑے اٹکاتے ،لیکن جو شخص کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تھوڑا سا بھی تدبر کرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرے تو اس کے لئے اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں بچتی کہ "لاالہ الا اللہ " کا جو معنی یہ دانشور سمجھتے ہیں، حقیقی معنی اس سے کہیں ارفع و اعلی ہے، اور وہ ہے: اللہ عزوجل کی عبادت کرنا اور اس کے علاوہ تمام معبودوں کی عبادت کا انکار کرنا، اور ابوجہل ودیگر قریشی مشرکین نے اس معنی کو سمجھ لیا تھااور اسی وجہ سے اس کا انکار کیا تھا، کیونکہ یہ کلمہ ان کے آباؤ اجداد کےاس دین کی بنیاد کو منہدم کر رہا تھا جس میں انہوں نے خالق اور مخلوق کو عبادت میں یکجا کردیا تھا۔ 13۔ مسئلہ توحید حاکمیت کو اگر اس کے عمومی معنی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ دینی و دنیاوی دونوں امور کو شامل ہے، نیکی کا حکم دینا ، برائی سے روکنا اور اللہ عزوجل کی طرف دعوت دینا ایک عبادت ہے، اور عبادت میں ان دو شروط کا پایا جانا ناگزیر ہے جن کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہے، یعنی اللہ عزوجل کے لئے اخلاص، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروری، لہذا ہر وہ عمل جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم |