رافضی، ایک مسلمان ، ایک یہودی ایک عیسائی کے درمیان کوئی فرق نہیں رہے گا[1]، اور اس قسم کے رویے اور قوانین سے اللہ عزوجل کا جو بندوں پر حق ہے وہ ضائع ہوجاتا ہے۔ انہیں آخر جمہوریت کی کیا بات پسند آتی ہے؟ یہ لوگ کہتے ہیں :"نظام جمہوریت اس لحاظ سے دیگر نظاموں سے ممتاز ہے کہ اس میں ایک شخص مستقل حاکم نہیں رہتا، بلکہ وہ ایک عرصہ تک حکومت کرتا ہے پھر کوئی دوسرا آ جاتا ہے ، اور اس وجہ سے وہ سارا مال اپنے قبضہ میں نہیں کرسکتا"، ان کی نظر میں حکومت، مال اور اسی قسم کی چیزوں کی اہمیت ہے، ان لوگوں نے کبھی اللہ عزوجل کے حق کو اہمیت نہیں دی، اور (افسوس کی بات یہ ہے کہ )نظام جمہوریت کو بہترین قرار دینے کے اس نظریہ میں سیکولر افراد کے ساتھ ایسے لوگ بھی شریک ہیں جو اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کرتےہیں ۔[2] اسلام نے حاکم اور رعایا کے ایسے حقوق مقرر کئے ہیں جو کسی بھی طرح حالیہ نظام جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتے، اسلام میں حاکم کے تخت سلطنت پر فائز رہنے کے لئے چند سالوں کی حد بندی نہیں ہے ، بلکہ اسلام کے ابتدائی دور سے اسلامی حکومت تو استخلاف (نظام خلافت) کے ذریعہ ہی چلتی آئی ہے، اور حاکم اللہ عزوجل کی جانب سے رعایا میں عدل قائم کرنے کا پابند ہے(اور اس پر چند سالوں کی پابندی نہیں ہے)، نیز یہاں یہ تنبیہ کرنا بھی ضروری ہے کہ اسلامی معاشرے کی اصلاح صرف حاکم کے درست ہونے سے نہیں جڑی ہوئی ، بلکہ عوام کی درستی اور ان کا راہ راست پر ہونا بھی ضروری ہے، کیونکہ حاکم بھی تو اسی معاشرے کا ہی ایک فرد ہےجس معاشرے میں وہ رہ رہا ہے، اگر وہ معاشرہ نیک ہوگا تو حاکم بھی نیک ہوگا، اور اگر معاشرہ برا ہوگا تو حاکم بھی اسی طرح ہوگا، اللہ عزوجل کا فرمان ہے: [ وَكَذٰلِكَ نُوَلِّيْ بَعْضَ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ]( الانعام129)ترجمہ: "اور اسی طرح ہم ظالموں کوان کے اعمال کے سبب جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے پر مسلط کردیتے ہیں ، اور بعض سلف صالحین کا قول ہے کہ: "جس طرح تم خود ہوگے اسی طرح کا حاکم تم پر مسلط کیا |