’’کہہ دیجیے اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آئو جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے علاوہ رب نہیں بنائے گا۔ تو اگر وہ لوگ منہ پھرلیں تو تم لوگ کہو کہ گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں۔‘‘ ………………… شرح ………………… اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی خود اپنی ذات کے لیے گواہی ہے کہ معبود وہی ہے کوئی اور نہیں۔ اس بات پر فرشتوں اور اہل علم کی بھی گواہی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کرنے والا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اسی بات پر یہ کہہ کر زور دیا ہے کہ: {لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ} ’’اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زبردست، حکمت والا ہے۔‘‘ اس آیت میں اہل علم کی زبردست منقبت بیان کی گئی ہے اور وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے ساتھ گواہ ہیں۔ یہاں اہل علم سے مراد وہ لوگ ہیں جو شریعت الٰہی کا علم رکھتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا مرتبہ انبیاء و رسل کو حاصل ہے۔ یہ گواہی گواہوں اور جس بات کی گواہی دی گئی ہے، دونوں کی عظمت کے پیش نظر عظیم ترین گواہی ہے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے اور اہل علم گواہ ہیں۔ اور جس بات کی گواہی دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی الوہیت میں یکتا و تنہا ہے۔ {لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ} میں بھی اسی پر زور دیا گیا ہے۔ مؤلف رحمہ اللہ کا قول: ’’اس کا معنی یہ ہے کہ‘‘ سے مراد لا إلہ الا اللہ کا معنی ہے۔ اور وہ یہ کہ معبود برحق سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں۔ چنانچہ لا الہ الا اللہ کی گواہی یہ ہے کہ انسان اپنی زبان اور دل سے اس بات کا اعتراف کرے کہ اللہ عزو جل کے سوا معبود برحق کوئی نہیں ہے۔ کیوں کہ ’’إلہ‘‘ ’’مالوہٌ‘‘ کے معنی میں ہے، اور تألہ تعبد کو کہتے ہیں، ’’لَا اِلٰہَ الَّا اللّٰہ‘‘ کا جملہ نفی اور اثبات پر مشتمل ہے۔ ’’لا الہ‘‘ نفی ہے اور ’’الا اللہ‘‘ اثبات۔ اور لفظ جلالہ |