واجبات ادا کرسکتے ہوں۔ ایسے لوگوں پر ہجرت واجب ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: {اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَا فَاُولًٰئِکَ مَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًاo} (النساء: ۹۷) ’’بے شک جب ایسے لوگوں کی جان فرشتے قبض کرتے ہیں جنہوں نے اپنے کو گنہگار کررکھا تھا تو وہ ان سے کہتے ہیں کہ تم کس کام میں تھے؟وہ کہتے ہیں کہ ہم سرزمین میں مغلوب تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم ترک وطن کرکے اس میں چلے جاتے؟ سو ان لوگوں کاٹھکانا جہنم ہے اور جانے کے لیے وہ بری جگہ ہے۔‘‘ یہ ایک سخت وعید ہے جو وجوب پردلالت کرتی ہے۔ وجوب کی دلیل یہ بھی ہے کہ دینی واجبات کی ادائیگی بھی اس شخص پر واجب ہوتی ہے جو ادائیگی کرسکتا ہو۔ہجرت واجب کی ضرورت اور اس کاتتمہ ہے۔ اور جس سے واجب پورا ہوتا ہو وہ بھی واجب ہوتا ہے۔۱۔ھ۔ ان دونوں بنیادی شرطوں کے بعدہم بتانا چاہتے ہیں کہ دارالکفرمیں اقامت کی کئی نوعیتیں ہیں: پہلی نوعیت یہ ہے کہ اگر قیام کرنے والا وہاں اسلام کی دعوت اور اسلام کی طرف راغب کرنے کی غرض سے قیام کرتا ہے تو یہ ایک طرح کاجہاد ہے۔ یہ اقامت ان لوگوں کے لیے فرضِ کفایہ ہے جو کہ ایسا کرسکتے ہوں، بشرطیکہ دعوت کے اثرات ظاہر ہوتے ہوں اور کوئی دعوت دینے یادعوت قبول کرنے سے منع کرنے والا نہ ہو۔ اسلام کی دعوت ایک دینی فریضہ اور پیغمبرانہ وظیفہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زمان ومکاں کی قید کے بغیر اپنی طرف سے تبلیغ کرنے کاحکم دیا تھا۔ چنانچہ فرمایا ہے:’’میری طرف سے ایک آیت ہی کی سہی تبلیغ کرو۔‘‘ |