فرمایا ہے: {قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبَعَثُوْنَo} (النمل: ۶۵) ’’آپ کہہ دیجئے کہ جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں موجود ہیں کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا بجزاللہ کے۔ انکویہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہا ہے کہ وہ پوری جماعت کے سامنے اعلان کردیں کہ آسمان اور زمین میں رہنے والا کوئی بھی سوائے اللہ کے غیب نہیں جانتا، تو جو علمِ غیب کادعویٰ کرے وہ اس قرآنی خبر میں اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلاتا ہے۔ہم ان سے کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم تو غیب جانو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہ جانیں؟ کیا تم زیادہ شرف والے ہو یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ اگر کہتے ہیں کہ ہم رسول سے زیادہ شرف والے ہیں تو ایسے کفریہ قول کی وجہ سے وہ کافر ہیں۔ اور اگر کہتے ہیں کہ رسول زیادہ شرف والے ہیں، تو ہم کہیں گے کہ تب غیب ان سے کیوں پوشیدہ رہا اور تم اسے جان گئے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایا: {عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہِ اَحَدًاo اِِلَّا مَنْ ارْتَضَی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ رَصَدًاo} (الجن: ۲۶۔ ۲۷) ’’غیب کاجاننے والا وہی ہے سو وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ ہاں مگر اپنے کسی برگزیدہ پیغمبر کو۔ تو اس پیغمبر کے آگے اور پیچھے محافظ فرشتہ بھیج دیتا ہے۔ یہ دوسری آیت ہے جو علم غیب کے مدعی کو کافر ثابت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ قوم کے سامنے اعلان کردیں: {قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓیo} (الانعام: ۵۰) |