Maktaba Wahhabi

215 - 220
نے فرمایا ہے: {وَإِنَّ عَلَیْکَ لَعْنَتِيْ إِلٰی یَوْمِ الدِّیْنٍo} (ص: ۷۸) ’’بیشک تم پر قیامت کے روز تک میری لعنت ہے۔‘‘ ’’ابلیس‘‘ فرشتوں کے ساتھ ان کی صحبت میں رہ کر انہیں کی طرح عمل کرتا تھا۔جب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کاحکم دیا گیا تو جو خباثت، انکار اور غرور اس میں تھا ظاہر ہوگیا۔ چنانچہ اس نے انکار کردیا۔ تکبر کاشکارہوا اور کافر بن گیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کردیاگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنo} (البقرہ: ۳۴) ’’اور جس وقت ہم نے فرشتوں کوحکم دیا کہ آدم کے لیے سجدہ میں گرجائو تو سب سجدہ میں گر گئے بجز ابلیس کے۔ اس نے کہا نہ مانا اور غرور میں آگیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی عبادت کی جارہی ہو اور اسے پسند ہو کہ وہ اللہ کے علاوہ پوجائے ، ایسا شخص بھی ۔ نعوذ باللہ۔ ایک بڑا طاغوت ہے۔ چاہے وہ اپنی زندگی میں پوجا جارہا ہو یااپنی موت کے بعد، اور وہ جب مرا تو اس بات سے راضی تھا۔ یعنی وہ جو دوسروں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہواگرچہ لوگ اس کی عبادت نہ کرتے ہوں، تو وہ بھی سردارنِ طاغوت میں سے ہے۔ چاہے اس کی دعوت قبول کی گئی ہویانہ کی گئی ہو۔جو چیز انسان کے علم وادراک سے غائب اور اوجھل ہو وہ ’’غیب‘‘ ہے۔ ’’غیب‘‘ کی دو قسمیں ہیں: حال اور مستقبل ’’غیب حال‘‘ ایک نسبتی علم ہے،کسی کو معلوم ہوتا ہے کسی کو نہیں۔ اور ’’غیب مستقبل‘‘ حقیقی علم ہے جو اللہ وحدہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں لیکن ان رسولوں کو معلوم ہو جاتا ہے۔ جنہیں کہ اللہ تعالیٰ اطلاع دے دیتا ہے ۔ لہٰذا جو’’غیب مستقبل‘‘ کے علم کادعویٰ کرتاہے وہ کافر ہے۔ کیوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے
Flag Counter