یاان کی اتباع اور اطاعت کی جارہی ہو۔ لہٰذا وہ بت جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجے جارہے ہوں طاغوت ہیں، علماء سوء جو کفر وضلالت کی دعوت دے رہے ہوں یابدعت یاحرام کوحلال یاحلال کو حرام کرنے کی دعوت دے رہے ہوں طاغوت ہیں۔ اور وہ لوگ بھی جو اپنے درآمد شدہ مخالفِ اسلام نظام کے ذریعہ حاکموں کے لیے شریعت اسلامی سے باہر ہوجانے کاجواز فراہم کرتے ہوں طاغوت ہیں، کیوں کہ یہ تمام لوگ اپنی حد سے آگے نکل گئے ہیں۔ ایک عالم کی حد یہ ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے احکام کامتبع ہو۔ اس لیے کہ علماء ہی حقیقتاً انبیاء کے وارث ہیں۔ وہ انبیاء سے علم،عمل، اخلاق، دعوت اور تعلیم کی شکل میں وراثت پاتے ہیں۔ اگروہ اس حد سے آگے نکل جائیں اور احکام کے لیے اس طرح کے نظاموں سے شریعت اسلام سے باہر ہوجانے کا جواز فراہم کرنے لگیں تو وہ طاغوت ہیں۔ کیوں کہ اتباعِ شریعت کی جس حد میں رہنا ان کے لیے واجب تھا وہ اس سے آگ نکل گئے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: (’’یا جس کی اطاعت کی جارہی ہو‘‘) تو اس سے وہ ایسے حکام مراد لے رہے ہیں جن کی شرعی طور پر یاحیثیت اور مرتبہ کے لحاظ سے اطاعت کی جاتی ہے ۔ حکام کی شرعی طور پر یاحیثیت اور مرتبہ کے لحاظ سے اطاعت کی جاتی ہے۔ حکام کی شرعی طور پر اس صورت میں اطاعت کی جائے گی جب کہ وہ ایسے امور کاحکم دیتے ہوں جو اللہ اور رسول کے حکم کے خلاف نہ ہوں۔ ایسی صورت میں ان کو طاغوت کہنا صحیح نہیں ہوگا بلکہ رعایا پر سمع وطاعت واجب ہوگی اور حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کی ہی اطاعت ہوگی۔ اس لیے مناسب ہے کہ جب ہم حاکم اور والی کی طرف سے اپنے اوپرعائد کسی حکم کانفاذ کریں تو یہ ملحوظ رکھیں کہ ہم اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس کاقرب حاصل کرتے ہیں۔ ایسا خیال رکھنے سے یہ ہوگا کہ اس حکم کے لیے ہماری پابندی اللہ تعالیٰ کے تقرب کاذریعہ بن جائے گی ۔ ایسا خیال اس لیے رکھنا چاہئے کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ} (النساء: ۵۹) |