Maktaba Wahhabi

212 - 220
اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں کے اوپر فرض کیا ہے کہ وہ طاغوت کاانکار کریں اور اللہ پر ایمان لائیں۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ :’’جس کی عبادت یااتباع یااطاعت کی جارہی ہو اور اس کے تئیں بندہ اس کی حد سے تجاوز کرجائے تو وہ طاغوت ہے۔‘‘ طواغیت بہت ہیں جن میں سے بڑے بڑے پانچ یہ ہیں: ابلیس (اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو )وہ جس کی عبادت کی جاتی ہو اور وہ اس کو پسند کرتا ہو وہ جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہووہ جو علم غیب کاذراسا بھی دعویٰ کرتا ہواور جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو۔ دلیل: ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں ۔ ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔لہٰذا جو شخص طاغوت کاکفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا۔‘‘ اور یہی ’’لاالہ الااللہ‘‘ کامفہوم ہے۔ ………………… شرح ………………… اس سے شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت اور طاغوت سے پرہیز کے بغیر توحید مکمل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے بندوں پر فرض کیا ہے۔ ’’طاغوت‘‘ طغیان سے ماخوذ ہے۔ حد پھلانگ جانے کو طغیان کہتے ہیں۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے: {إِنَّا لَمَّا طَغَی الْمَائُ حَمَلْنَاکُمْ فِي الْجَارِیَۃٌo} (الحاقۃ: ۱۱) ’’ہم نے جب کہ پانی حد کو پھلانگ گیا تو تم کوکشتی میں سوار کیا۔‘‘ یعنی جب پانی طبعی حد سے زیادہ ہوگیا تو ہم نے تم لوگوں کو کشتی میں اٹھا لیا۔ ’’طاغوت‘‘ کی سب سے درست اصطلاحی تعریف وہی ہے جو ابن القیم رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے۔ یعنی ’’ہر وہ شخص ہے جس کی عبادت یااتباع یااطاعت کی جارہی ہو اور اس کے تئیں بندہ اس کی حد سے تجاوز کرجائے تو وہ طاغوت ہے۔ ابن القیم رحمہ اللہ کی ایسے تینوں شخصوں سے مراد غیر صالح لوگ ہیں ورنہ صالح لوگ طاغوت نہیں ہیں، چاہے وہ پوجے جارہے ہوں
Flag Counter