حالانکہ وہ اس مرتبہ کو نہیں پہنچ پاتی جس مرتبہ کو دوبارہ زندگی سے متعلق خبر پہنچی ہوئی ہے نہ وسائلِ نقل کے لحاظ سے نہ واقع کی شہادت کے اعتبار سے ۔ دوم: کئی طریقوں سے عقل دوبارہ زندگی کے امکان کی شہادت دیتی ہے۔ ۱۔ کوئی اس بات کاانکار نہیں کرتا کہ وہ عدم کے بعد پیدا کیا گیا ہے ۔ اس نے جب وجود پایا تو وہ کچھ نہیں تھا۔ لہٰذا وہ ذات جس نے اسے نہ ہونے کے بعد پیدا کیا اور وجود دیا ہے وہ اس کے دہرانے پر بدرجہ اولیٰ قدرت رکھتا ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ {وَھُوَالَّذِيْ یَبْدَأُالْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَھُوَأَھْوَنَ عَلَیْہِ} (الروم: ۲۷) ’’اور وہی ہے جو اول بار پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ اس کے نزدیک زیادہ آسان ہے۔‘‘ اور فرمایا: {کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ وَعْدًا عَلَیْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنٍo} (الانبیاء: ۱۰۴) ’’ہم نے جس طرح اول بار پیدا کرنے کے وقت ہر چیز کی ابتداء کی تھی اسی طرح اس کودوبارہ پیدا کردیں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے ہم ضرور کریں گے۔‘‘ ۲۔ آسمان وزمین کی عظیم جسامت اور بناوٹ کے پیش نظر ایک آدمی بھی ان کی پیدائش کی عظمت کاانکار نہیں کرتا۔ جس ذات نے ان دونوں کو پیدا کیا ہے وہ بے شک لوگوں کو وجود دینے اور ان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ} (المؤمن: ۵۷) ’’بالیقین آسمانوں اور زمین کاپیدا کرنا آدمیوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے۔‘‘ اور فرمایا: |