قیس بن ابی حازم جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا سہتا ہے۔‘‘ لوگوں نے کہا:’’یارسول اللہ کیوں؟ فرمایا:’’ دونوں کی آگ نہیں دکھائی دینی چاہئے۔‘‘ اس حدیث کو ابوداود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اور اکثر راویوں نے اسے(قیس بن أبی حازم عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) مُرسلاً ہی روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا کہ میں نے محمد یعنی امام بخاری سے سنا ہے ان کاکہنا ہے کہ حدیثِ قیس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم مرسل ہی درست ہے۔۱۔ھ۔ کسی مؤمن کی طبیعت کیسے گوارہ کرے گی کہ وہ کافر ملک میں سکونت اختیار کرے جہاں شعائر کفر علی الاعلان ادا کئے جاتے ہوں، غیر اللہ اور غیر رسول کاحکم چلتا ہو، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور اپنے کانوں سے سنتا ہو اور اس پر راضی ہو؟ یااس ملک کی طرف منسوب ہویااپنے اہل وعیال کے ساتھ وہاں سکونت پذیر ہویاوہاں اپنے اہل وعیال کے دین اور اخلاق کے لیے زبردست خطرے کے باوجود ایسا ہی سکون واطمینان محسوس کرتا ہوجیسا کہ وہ کسی مسلم ملک میں محسوس کرسکتا ہے۔ جہاں تک ہماری رسائی ہوسکی ہے ہم نے کافر ملک میں اقامت کاحکم بیان کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حق اور صواب کے موافق ہو۔ ٭٭٭ فَلَمَّا اسْتَقَرَّ بِالْمَدِیْنَۃِ اَمَرَ ببَقِیَّۃِ شَرَائِعَ الْاِسْلَام مِثْلُ: الزَّکَاۃِ ، وَالصَّوْم، وَالْحَجِّ، وَالْجِہَادِ، وَالاَذَانِ، وَالْاَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہِی عَنِ الْمُنْکَرِ وَغَیْرِ ذَلِکَ مِنْ شَرَائِعِ الْاِسْلَامِ۔ اَخَذَ عَلَی ہَذَا عَشْرَ سِنِیْنَ وَبَعْدَہَا تُوُفِّی صَلَواَتُ اللّٰہِ وَسَلامُہُ عَلَیْہِ وَدِیْنُہُ بَاقٍ۔ وَہَذَا دِیْنُہُ ، لَا خَیْرَ اِلَّا دَلَّ الاُمَّۃَ عَلَیْہِ ، وَلاَ شَرَّ اِلَّا حَذَّرَہَا مِنْہُ، وَالْخَیْرُ الَّذِیْ دَلَّ عَلَیْہِ: التَّوْحِیْدُ، وَجَمِیْعُ مَا یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَیَرْضَاہُ ۔ وَالشَّرُّ الَّذِیْ |