کہ میں گمراہ ہوجائوں۔‘‘ شرط سوم: طالب علم کے پاس ایسی دین داری ہو جو اسے کفر اور فسق سے محفوظ اور مامون رکھ سکے۔ کیوں کہ دین میں ناپختہ کاروہاں اقامت کرکے صحیح سالم نہیں رہ سکتا، الاماشاء اللہ ۔ وجہ یہ ہے کہ حملہ آور سخت ہوگا اور دفاع کرنے والا کمزور۔ وہاں کفر وفسق کے اسباب قوی ہوں گے اور طرح طرح کے ہوں گے۔ جب ایسے محاذ پر حملہ آور ہوں گے جہاں کادفاع کمزور ہوتو اپنا عمل کرجائیں گے۔ شرط چہارم: اس علم کی حاجت ہو جس کی وجہ سے قیام ہوا ہے مثلا اس علم کے حصول میں مسلمانوں کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہو اور ان کے اپنے ملک کی تعلیم گاہوں میں اس طرز کی تعلیم کاوجود نہ ہو۔ اگر ایسا فضول علم ہے جس میں مسلمانوں کی کوئی بھلائی نہ ہو، یااسلامی ملک میں ایسے مدارس کاوجود ہو جہاں اس طرح کی تعلیم کاانتظام ہے تو اس علم کے لیے کافر ملک میں اقامت جائز نہیں ہوگی۔ کیوں کہ اقامت میں دین واخلاق کو خطرہ اور بلاوجہ کثیر دولت کازیاں ہے۔ چھٹی نوعیت یہ ہے کہ سکونت اختیار کرنے کے لیے قیام ہو۔ یہ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں کہ کافروں کے ساتھ مکمل میل جول سے بڑے بڑے مفاسد جنم لیں گے۔ اس کے شعور میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ وہ بھی اہل وطن میں سے ہے، اس لیے لازماً اس کی طرف سے ایسے کاموں کاصدور ہوگا جن کاکہ وطن پرستی تقاضہ کرتی ہے، جیسے میل جول ، دوستی اور جماعت کافرین میں اضافہ۔ اس کے اہل وعیال کافروں کے درمیان رہ کر تربیت حاصل کریں گے اور ان کی عادات واخلاق کو اپنالیں گے، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ عقیدہ اورعبادات میں بھی ان کاطرز اپنالیں۔ اسی لیے حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:’’جو مشرک کے ساتھ بودوباش رکھتا ہے وہ اسی جیسا ہے۔‘‘حدیث اگرچہ ضعیف السند ہے لیکن ایک نظریہ فراہم کرتی ہے کہ بودوباش گھل مل جانے کی اپیل کرتے ہیں۔ |