Maktaba Wahhabi

188 - 220
سے جاسوس بن کر وہاں اقامت کرنا چاہتا ہو تاکہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرے اور مسلمان ان سے ہوشیار رہیں۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو مشرکین کے درمیان بھیجا تھا کہ آپ ان حالات سے آگاہ رہیں۔ تیسری نوعیت یہ ہے کہ مسلم حکومت کی کسی ضرورت ، اور کافر ملک کے ساتھ تعلقات کو منظّم کرنے کی غرض سے اقامت اختیار کی جائے، جیسے سفارت کے اہل کار، تو اس کاحکم اقامت کی غرض وغایت کے تابع ہے۔ مثلا ملحق ثقافی:جس کاقیام اس غرض سے ہوتا ہے کہ طلبہ کے معاملات کی دیکھ بھال اور ان کی نگرانی ہو، انہیں اسلام اور اسلامی اخلاق وآداب پر کاربندرکھا جائے، تو ایسی اقامت سے ایک بڑی مصلحت حاصل ہوتی ہے اور شر کادفعیہ ہوتا ہے۔ چوتھی نوعیت یہ ہے کہ اقامت تجارت اور علاج جیسی کسی خاص اور جائز ضرورت کی غرض سے ہو، تو ضرورت کے مطابق یہ اقامت درست ہے۔علماء علیہا السلام نے صحابہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغرض تجارت کافر ملک میں جانے کاثبوت فراہم کیا ہے۔ پانچویں نوعیت یہ ہے کہ تعلیم کی غرض سے وہاں اقامت کی جائے، یہ اقامت بھی سابق اقامت کی طرح اقامت برائے ضرورت ہی کی قسم ہے، لیکن اس سے زیادہ خطرناک اور قیام کرنے والے دین واخلاق کے حق میں سخت تباہ کن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ طالب علم شعوری طور پر اپنے رتبہ کی پستی اور استاذ کے مرتبہ کی بلندی کااحساس رکھتا ہے جس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی تعظیم ، ان کے افکار وخیالات اور ان کے کردار سے متاثر ہونے لگتاہے اور انہیں کاراستہ اپنا لیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی جس کو بچالے بچالے، لیکن ایسے طالب علموں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ طالب علم کو اس بات کااحساس رہتا ہے کہ اسے اپنے استاذ کی ضرورت ہے ، اور یہ احساس اس کو استاذ کی محبت تک ہی نہیں بلکہ استاذ کے انحراف اور گمراہی کے سلسلے میں مداہنت اختیار کرلینے تک پہنچا دیتا ہے۔ درس گاہ میں طالب علم کے ساتھی حضرات بھی ہوتے ہیں جن میں سے کچھ سے اس کی دوستی ہوجاتی ہے ، پیار ومحبت کارشتہ قائم ہوجاتا ہے اور ان سے فائدہ بھی پہنچنے لگتا ہے۔
Flag Counter