ساتھ لیتے آئے۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) حرہ کے کھلے حصہ میں انہوں نے آپ سے ملاقات کی اور آپ انہیں لے کردائیں طرف ہٹ گئے اور قبامیں بنو عمروبن عوف کے یہاں اترے اور ان کے یہاں چند راتیں قیام کیا اور مسجد کی بنیاد ڈالی۔پھر مدینہ کاسفر اختیار فرمایا۔ لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ دوسرے لوگ آپ سے راستے میں ملاقات کررہے تھے۔ ابوبکر کہتے ہیں کہ جب ہم مدینہ آگئے تو لوگ راستوں اور گھروں کے اوپر نکل آئے۔ بچے غلام کہتے تھے :اللہ اکبر رسول اللہ آگئے ، اللہ اکبر محمد آگئے۔ ٭٭٭ وَالْہِجْرَۃُ: الاِنْتِقَالُ مِنْ بَلَدِ الشِّرْکِ اِلَی بَلَدِ الْاِسْلَامِ وَالْہِجْرِۃُ فَرِیْضَۃٌ عَلَی ہَذِہِ الْاُمَّۃِ مِنْ بَلَدِ الشِّرْکِ اِلَی بَلَدِ الْاِسْلَامَ، وَہِیَ بَاقِیَۃٌ اِلَی اَنْ تَقُوْمَ السَّاعَۃُ۔ وَالدَّلِیْلُ قَوْلُہُ تَعَالَی: {اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَا فَاُوْلٰٓئِکَ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًاo اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَ لَا یَہْتَدُوْنَ سَبِیْلًاo فَاُولٰئِٓکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْہُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْرًاo} (النساء: ۹۷۔۹۹) وَقَوْلُہُ تَعَالَی: {یَعِبَادِیَ الَّذِیْنَ ئَ امَنُوٓا اِنَّ اَرْضِی وَاسِعَۃٌ فَاِیَّیَ فَاعْبُدُوْنَo} (العکنبوت: ۶۵) قَالَ الْبَغَوِیُّ . رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالَی : سَبَبُ نُزُوْلِ ہٰذِہِ الْآیَۃِ فِی الْمُسْلِمِیْنَ الَّذِیْنَ بِمَکَّۃَ لَمْ یُہَاجِرُوْا؛ نَادَاہُمُ اللّٰہُ بِاسْمِ الْاِیْمَانِ۔ وَالدَّلِیْلُ عَلَی الْہِجْرَۃِ مِنَ السُّنَّۃِ قَوْلُہُ صلی اللہ علیہ وسلم : ((لاَ تَنْقَطِعُ الْہِجْرَۃُ حَتَّی تَنْقَطِعَ التَّوْبَۃُ وَلاَ تَنْقَطِعُ التَّوْبَۃُحَتّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا))۔ |